Jis Daur Mein Jeena Mushkil Ho
جس دور میں جینا مشکل ہو
زندگی کی اٹل حقیقت سے پردہ چاک کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ابنِ آدم کی زندگی چاروں طرف سے مشکلات میں گھِری ہوئی ہے۔ زیست کا ہر پہلو انسان کی ہمت، جہدِ مسلسل اور جوش و جذبے کے لیے ایک للکار ثابت ہوتا ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ زندگی کے گھوڑے کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے کس قدر چابک بندی کرنی پڑے گی؟ پھر چاہے وہ معاشی، معاشرتی یا نجی زندگی کے اعتبار سے ہو۔
موجودہ دور میں اگر مسائل کی درجہ بندی کی جائے تو معاشی بد حالی اوۤل درجے پر آتی ہے خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر ہو۔ ملکی معاشی نظام کی بات کی جائے تو سب سے اہم پہلو یہ نکلتا ہے کہ آخر کسی ایک حکومت کا تختہ پلٹ جانے سے نئی آنے والی حکومت یہ راگ کیوں الاپتی ہے کہ قومی خزانہ خالی ہو چکا ہے اور اب ہمیں تو اس بات کا پرمٹ مل چکا ہے کہ مہنگائی کا بازار گرم رکھا جائے۔
عالمی و ملکی سطح پر پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت مسئلہ کشمیر کی سی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ حکومت ایک دن پہلے عندیہ دیتی ہے کہ کل رات 12 بجے سے پیٹرول کی قیمت درِ پردہ آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق بڑھا دی جائے گی تو عوام جو بفضلِ خدا اپنی ذاتی سوار کے متحمل ہیں سڑکوں پر جوق در جوق نکل پڑتے ہیں کہ گویا وہ اپنی کار یا موٹر سائیکل کے لیے پیٹرول نہیں آبِ حیات حاصل کر لیں گے۔
اسی سلسلے کی پہلی کڑی میں جب پیٹرول کی قیمت 150 سے 180 تک بڑھانے کا اعلان کیا گیا تھا تو فدوی کو بھی ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے ہی خبر سماعتوں سے گزری تو سوچا کیوں نہ اس آبِ حیات میرا مطلب ہے پیٹرول کے حصول کے لیے آج ہی نکلا جائے، جانے کل کیا ہو جائے؟ پھر ہم اپنی اس دانشمندانہ سوچ کو تھپکی دیتے ہوۓ گاڑی لے کر پیٹرول گھاٹ عرفِ عام پٹرول پمپ کی جانب روانہ ہو گئے اور وہاں اس قدر آنکھوں کو خیراں کر دینے والا منظر تھا کہ خدا کی پناہ۔
سڑکوں پر تاحدِ نگاہ ٹرانسپورٹ کا ایک ریلا تھا اور اپنی باری کے منتظر پاکستانی قوم کے صبر کا مظاہرہ تاریخ میں جلی حروف میں لکھ دینے کے قابل تھا۔ اسی عالم میں پیٹرول گھاٹ کے مالکان کی جانب سے ہوا میں سازش کی بو محسوس ہوتی ہے کہ کار سوار کو محض ہزار روپے اور موٹر سائیکل کو سو روپے مالیت پیٹرول فراہمی کی قدغن لگ چکی ہے۔
بس قصہ مختصر، یہ سنتے ہی ہم نے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوے کپتان کی "یو ٹرن" والی سکیم پر عمل پیرا ہونے میں ہی اپنی عافیت جانی اور "لوٹ کے بدھو گھر کو آئے" کے مصداق گھر کی راہ لی۔ بات صرف پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت پر ہی ختم نہیں ہوتی آٹا، بجلی کی مہنگائی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے میں کمی غرض یہ کہ عوام کی تمام بنیادی ضروریات کو ہتھیار بنا کر ان کی زندگی پر کاری وار کیا جا رہا ہے اور کسی جونک کی طرح کمال ہوشیاری سے خون چوسا جا رہا ہے اور انہی حالات پر مجھے میر دردؔ کا ایک شعر بہت شدت سے یاد آتا ہے، کہ؎
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
معاشی بد حالی نہ صرف ملک کی بین الاقوامی ساکھ متاثر کرتی ہے بلکہ سماجی و معاشرتی نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں بھی ایک ناسور ثابت ہوتی ہے۔ آج ہم اپنے اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے اپنے اپنے کام میں ہر کوئی اس قدر مگن ہے کہ اس کی سماجی زندگی مفلوج سی ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے بڑوں کی مل بیٹھ کر دکھ درد بانٹنے کی ریت سوشل میڈیا اسٹیٹس سے منہدم ہو چکی ہے۔
محبت و اخوت کا پرچار کرنے کی بجائے دوسروں کی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنا کر نفرت و عداوت جیسی کالی بھیڑیں اپنا راج قائم کر چکی ہیں۔ انسان کی نجی زندگی میں فکرِ معاش ریڑھ کی ہڈی کے سرطان کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور وہ ہر لحظہ اپنے اچھے وقت کے انتظار میں کمر بستہ رہتا ہے۔ بقول بشاعر؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
مگر میرا ماننا ہے کہ جب بھی حالاتِ حاضرہ کو زیرِ بحث میں لایا جاتا ہے تو تمام مثبت و منفی پہلو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ امید کی کرن تھمانا بھی ایک لازمی سا امر ہے کہ تمام تلخ حقیقتوں سے آشنا ہونے کے باوجود بحیثیتِ مخلوقِ خدا ہمارا یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ "ہر شبِ غم کی سحر ہوتی ہے" اور یہ زندگی خدا کی امانت ہے جس کو بسر کرنے کے لیے دکھ درد، رنج و الم، مسائل، مشکلات کی موجودگی میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور مایوسی جیسے کفر سے خود کو بعض رکھنا چاہیے۔ خدا کی عطا کردہ قوتِ ارادی کے زور بازو اس عزم کو ہمیشہ بلند رکھنا چاہیے کہ؎
جس دور میں جینا مشکل ہو
اس دور میں جینا لازم ہے

