Iqbal Ka Falsafa e Khudi
اقبال کا فلسفہ خودی
اقبال کو بطور شاعرِ مشرق دیکھا جائے تو ان کی تمام شاعری کا لُبِ لباب "فلسفہ خودی" ہے۔
1۔ پھر چاہے وہ مسلمانوں کو ہزاروں سال کی غلامی سےآزادی دلوا کر ایک الگ ملک کی پہچان بنانے کا خواب ہو یا اپنے اسلاف کی وراثت کو از سرِنو تازہ کرنے کا اعادو ہو۔۔ اسی ضمن میں انہوں نے ایک جگہ کیا خوب کہا ہے۔ ؎
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
2۔ نوجوانوں کواپنی پہچان سے آگہی اور ان کے اندر عقابی روح بیدار کروانے کے لئے ولولہ انگیز شاعری کی کہ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
3۔ اقبال نے مسلمانوں کا خدا سے تعلق کی پہچان کے لئے شکوہ اور جوابِ شکوہ جیسی تصنیفات تحریر کیں۔ شکوہ میں مسلمانوں کی جانب سے اپنے حالاتِ حاضرہ پر آہ و فغان کرنے کے پیشِ نظر کیا خوب کہا ہے؎
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مستِ مہے پندار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیارکے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر
4۔ اور پھر جوابِ شکوہ میں ان تمام باتوں کا بھر پور جواب دیا اورمسلمانوں کو تلخ حقیقت سے روشناس کچھ ان اشعار کے ذریعے کروایا ہے؎
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقرہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوے تارکِ قرآں ہو کر
5۔ اقبال کی شاعری میں طلباء کو شاہین کے ساتھ تشبیہ دے کر حوصلہ افزائی کرنا مقصود تھا۔ مزید براآں شاعرِ مشرق کی شاعری کسی بھی قوم کے خیالات، تہزیب و تمدن اور فنونِ لطیفہ کی عکاسی کرتی ہے اور اقبال نے اپنے سخن سے بارہا یہی پہغام دیا ہے کہ؎
نگاہ بلند، سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لئے

