Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arooge Fatima
  4. Eid e Eisar

Eid e Eisar

عیدِ ایثار

عیدالاضحیٰ مسلمانوں کا وہ مذہبی تہوار ہے جو 10 ذوالحجہ کو سنتِ ابراہیمی کی تائید و تجدید کی غرض سے منایا جاتا ہے۔ بلاشبہ حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی خدا کے دین کی بقاء کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے پھر چاہے وہ دین کی تبلیغ ہو، بیت اللہ کی تعمیر ہو یا بیت اللہ میں بت شکنی کی پاداش میں بادشاہِ وقت کی جانب سے نظرِ آتش کر دیا جانا ہو لیکن آپؑ ہر لحظہ استقامت کے ساتھ عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لیے ڈٹے رہے۔ بقول شاعر؎

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائی لبِ بام ابھی

عیدِ قرباں محض ایک تہوار نہیں ہے بلکہ اس کی کڑی تاریخ اسلام کے ایک ایسے درخشاں باب سے جا ملتی ہے کہ جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی جو آج سے قریباً سوا پانچ ہزار سال قبل بیت اللہ کے قریب پیش آیا کہ خلیل اللہ پر جب خدا کی جانب سے آزمائش آتی ہے تو وہ کس قدر رِقت انگیز لمحہ ہو گا جب ایک باپ نے اپنے لختِ جگر سے سوال کیا ہو گا؟

" اے پیارے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری رائے کیا ہے؟ اور فرزندِ ابراہیمؑ نے کیا تابعداری سے جواب دیا، " ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے آپ کر ڈالیں بیشک مجھے صابرین میں سے پا ئیں گے۔ (الصفت۔ 37۔ 102)۔ بیٹے کی اس قدر تابعداری نے باپ کا حوصلہ بڑھایا اور باپ نے اپنے نوخیز لختِ جگر کی گردن پر چھری پھیر کر منشاءالٰہی کو پورا کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ بقول شا عر؎

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی

بیٹے کی جانب سے اطاعت و فرمانبرداری کا عملی نمونہ اور باپ کی جانب سے اپنے محبوب رفیق کی خواہش پر سر تسلیم خم کرنے کے اس ایمان افروز منظر کو دیکھتے ہوے رحمتِ خداوندی جوش میں آتی ہے اور خدا کی جانب سے ندا آتی ہے کہ "اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم بے شک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم اپنے وفاداروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ کھلی آزمائیش تھی (الصفت۔ 37۔ 102)۔

اسی اثناء میں اللہ کا فرشہ دنبہ لے کر حاضر ہوتا ہے حضرت ابراہیمؑ کو اس کی قربانی کرنے کا پیغام دیتا ہے اور پھر مالکِ کائنات نے اپنے پیغمبر کے اس عمل کو رہتی دنیا تک امر کر کے اس تسلیم و رضا کی لازوال داستان کو بقائے دوام بخشا۔ قربانی کا لفظ "قرب" سے نکلا ہے یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے جو کام کیا جائے وہ قربانی کہلاتا ہے۔ مسلمان ہر سال اسی جذبے کے احترام میں اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں حلال جانور کی قربانی کرتے ہیں اور گوشت کو تین برابر حصوں میں بانٹ کر اپنے عزیز و اقرباء اور مستحقین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

مگر آج کل مسلمان ایک نئی روش اختیار کر چکے ہیں۔ جانور کے عمدہ اور سالم حصے اپنےعزیزوں کو ہدیہ کر دئے جاتے ہیں یا پھر فریزر کی نظر کر دئے جاتے ہیں جو کہ طریقِ سنتِ نبوی ﷺ کے سراسر منافی ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ ہمیشہ جانور کے تمام حصوں کو برابر کرنے کے بعد گوشت کی تقسیم کا حکم فرماتے تھے اور ارشادِ ربّانی ہے کہ۔ خدا تک نہ ہی ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ (سورہ الحج۔ 37)

عیدِ ایثار کے موقع پر مذہبی فریضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اصل فلسفے کو سمجھنا بھی لازم ہے۔ ہمارا دل اور روح بھی ایمان کے اسی جذبے سے لبریز ہونے چاہیے کہ ہم دینِ اسلام کی روشنی میں اپنی انا اور نفس کی قربانی کرنے سے کبھی گریز نہ برتیں اور اپنے آپ کو حکمِ الٰہی کے تابع کرنے کی کوشش ہمیشہ جاری رکھیں۔ مزید برآں عیدِ بقر ہمیں اپنے گرد و نواح میں موجود غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ باہمی یگانگت، محبت اور ہمدردی کا بھی درس دیتی ہے۔

بہرحال عید محض ایک تہوار ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنی روزمرہ مصروف زندگی سے مبراء ہو کر اپنے رشتے داروں، دوستوں و اقارب کے ساتھ مل بیٹھنے کا بہترین موقع ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاشرے میں امن و محبت کی فضاء قائم کرنے کے لیے اس تہوار کا اہتمام خوش اسلوبی سے کرنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ؎

رشتے رہیں سلامت، عیدیں ہزار باقی

About Arooge Fatima

Arooge Fatima is from faisalabad and Ph.D. Scholar at University of Agriculture.

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz