Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arooge Fatima
  4. Aye Qibla e Awwal, Hum Sharminda Hain

Aye Qibla e Awwal, Hum Sharminda Hain

اے قبلہ اوّل! ہم شرمندہ ہیں‎‎

اسلامی تاریخ کے اُوراق کی ورق گردانی کی جائے تومسلم اُمہ کا اپنی بقاء کی جنگ لڑنا ایک لازمی سا امر دکھائی دیتا ہے اور اہلِ یہود کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے کہ اس جنگ کے میدان میں مسلمانوں کی مخالف پارٹی کے طور پر سر گرم رہیں پھر وہ چاہے زمانہ جاہلیت میں اسلام کے ظہور پزیر ہونے پر مکہ میں پیش آنے والے واقعات ہوں یا مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا دور ہو غرضیکہ اسلام کا بول بالا کرنے کے ہر مرحلے میں اہلِ یہود نے مسلمانوں کو مظالم کا نشانا بنانااپنا عین فریضہ جانا۔

عصرِ حاضر میں فلسطین کی سر زمین پر ہونے والے ظلم کی بات کی جائے تو مسلمان ہونے کے ناطے ہماری روح تک کانپ جاتی ہے کہ ہم جو رہتی دنیا میں آنے والی اللہ عزوجل کے لاڈلے محبوب کی امت ہیں، اپنے مقدس مقامات، انبیاء کی سرزمین، قبلہ اوّل کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔

اگر اس المیہ جنگ کی جانچ پڑتال کی جائے تو مدعا یہ سامنے آتا ہے کہ فلسطین میں دراصل تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ مسلمانوں کے لیے بیت المقدس، عیسائوں کے لیے دیوارِ گریہ کا مقام اور یہودیوں کی جنگ کا سبب سلیمان ہیکل کی تعمیر ہے جس کی بنا پر وہ اپنی طاقت کے زورِ بازو مسلمانوں کے قبلہ اوّل کو نعوذ باللہ مسمار کرنے کے حامی نطر آتے ہیں۔

مگر تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قوم اپنے مذہب کی بقاء کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ 1120 میں عظیم مسلمان مجاہد صلاح الدین ایوبی مسجدِ اقصیٰ کو فتح کرنے میں کامیاب رہے، اور تمام اسلامی ریاستیں سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ اثر رہیں مگر انیسویں صدی کے آغاز میں مسلمان اور اہلِ یہود کے فسادات کی بنا پر اقوامِ متحدہ نے اکثریت کے اعتبار سے مسلم اور یہود کو الگ الگ ریاست میں تقسیم کر دیا اور پھریہودی اپنی ازلی جارحانہ فطرت کو مدِ نظر رکھتے ہوے فلسیطین کے متعدد حصے پر قبضہ کر کے 1948 میں اک نا جائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لائے۔

باقی مسلم ممالک کی طرح پاکستان نے بھی بطور ریاست قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین اک طویل جنگ جاری ہے اور فلسطینی مسلمان اپنے قبلہ اوّل کے تحفظ کے لیے تن تنہا کھڑے ہیں۔ اسرائیلی سامراج ظلم کی انتہا کرتے ہوے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کے بلند حوصلوں سے مسلسل شکست کھا رہے ہیں کہ۔۔

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتاہے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

فلسطین میں روز بروز بڑھتے ہوے ظلم و بربریت کے واقعات اسلامی تاریخ میں نہ صرف نوحہ گیری کی سی حیثیت اختیار کرچکے ہیں بلکہ اسلامی ریاستوں کے زوال کی بھی دہایی دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں قریباً پچاس کے لگ بھگ اسلامی ریاستیں کیوں عالمی طاقتوں کے سامنے سمندر کی جھاگ کی مانند بیٹھ چکی ہیں؟

1967 سے لے کر اب تک عالمی انسانی حقوق کے محافظ ادارے "اقوامِ متحدہ" کا شروع سے یہی لائحہ عمل رہا ہے کہ امن کی بنیاد پر مذاکرات کیے جائیں مگر ظالم کا پلڑہ بھاری ہونے کی وجہ سےاس مقدمے کا فیصلہ ہمیشہ غیر حتمی ہی رہا ہے۔

گو کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظرہرشخص اپنی بقاء کی جنگ انفرادی طور پر تو لڑ رہا ہے مگراب وقت آ چکا ہے کہ تمام مسلم قومیں اپنی تاریخ کی پاسداری کریں اور طارق بن زیاد جیسے مجاہدین کا علم بلند رکھیں اورعالمی نقشے پر اسلامی سالمیت کو از سرِنوروشناس کرانے میں حق بجانب رہیں۔

About Arooge Fatima

Arooge Fatima is from faisalabad and Ph.D. Scholar at University of Agriculture.

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail