Asma e Husna Aur Sifat e Elahi Se Marifat e Khuda Tak Ka Safar
اسماءِ حسنیٰ اور صفاتِ الٰہی سے معرفتِ خدا تک کا سفر
پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے، وہی پالن ہار ہے، وہی رازق ہے وہی خالق اور وہی مالک ہے۔ بحیثیت مخلوق ہم پر خالق کا یہ حق ہے کہ ہم اس کی معرفت کو پہچانیں۔ دنیوی اعتبار سے ہم جب کسی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں تو دراصل ہم کمپنی کے مالک کے نمائندے ہوتے ہیں اور ہر لحظہ یہ خیال گزرتا ہے کہ کس طرح اپنے افسر اعلیٰ کی نظر میں خود کو ممتاز کیا جائے تاکہ ہم ترقی کا زینہ طے کر سکے۔ تو بحیثیت مخلوق یہ تو خالق کا صریحاً حق ہے کہ ہم اس کی پہچان کریں۔
معرفت الٰہی کا جو سب سے چنیدہ طریقہ ہے وہ قدرت پر غور و فکر اور تدبر کے بعد حقیقت کو من و عن تسلیم کر لینا اور اپنے ایمان کو مضبوط کر لینا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی شخصیت کی تعریف یا پہچان کی طرف مائل ہوتے ہیں تو اسمِ گرامی سب سے پہلا تعارف ہوتا ہے۔ پھر ربِ کریم تو وہ ذات ہے جس نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا کہ "اور سب سے اچھے نام اللہ تعالیٰ کے ہیں سو اسے ان کے ساتھ پکارو"۔
اسماء حسنیٰ کے توسط سے نہ صرف ہم اپنے رب کو پکار سکتے ہیں بلکہ بامعنی و مفہوم آگاہی حاصل کرکے رب تعالیٰ کی صفات سے بھی آشنا ہو سکتے ہیں۔ بچپن میں اکثر دورانِ دینی تعلیم ہمیں یہ نام تعظیماً یاد کروائے جاتے ہیں۔ مگر میں حیران ہوں جو اللہ کے ننانوے نام میری یاداشت میں کئی برسوں سے محفوظ ہیں ان کے صفاتی پہلو اور ہماری روز مرہ زندگی میں ان سے مستفید ہونے کا ہنر تو جانا ہی نہیں۔ مگر اب جب کہ ان کا بغور مطالعہ کیا ہے تو اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اللہ سے تعلق قائم کرنا تو ایک انتہائی سہل امر ہے۔
ہم کو رزقِ حلال کی طلب ہے تو "الرزاق" کو پکارا جائے تو وہ اپنے بندے کے لیے خزانے کے منہ کھول دیتا ہے۔ گناہوں سے دل سیاہ ہو چکے ہیں تو "الغفور" کے آگے بخشش کا سوال کرنے کی دیر ہے پھر چاہے عرش تک گناہوں کا ڈھیر ہو سب دھل جاتا ہے۔ رحم، عافیت اور کرم کی طلب ہو تو وہ الرحمٰن، العفو اور کریم کی صورت میں جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ جب مالک سے کسی بات کی شنوائی درکار ہوتو وہ رب السمیع و العلیم کا روپ دھار لیتا ہے۔ جب عطا کرے تو بے شمار عطا کرے کہ وہی رب ہے جو "الباسط"، "خیر کثیر عطا کرنے والا" ہے اور جب روک لے تو کون ہے جو "القابض" بن کر وارد ہوتا ہے۔ وہ جس کو چاہے خیر و بھلائی کثیر عطا کرے اور جب چاہے اپنے قبضہ قدرت سے روک لے۔
"البصیر" وہ صفاتی نام ہے جس کے بارے میں ایک خوبصورت فرماںِ خداوندی ہے "نگاہیں اس کو پا نہیں سکتیں اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے"۔
یعنی اس دنیا عالم میں رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی ایسی شے نہیں ہے جو رب کی نظروں سے اوجھل ہو۔ گویا کہ اسمائے حسنیٰ کو جب ہم اپنی دعاؤں کا حصہ بنا لیتے ہیں تو ہمیں ان کی قبولیت پر یقین کامل ہونے لگتا ہے اور دل اطمینان کی کیفیت میں آ جاتا ہے۔ صفاتِ الٰہی کی بات کی جائے تو رحمانیت رب کی ذات کا عظیم خاصہ ہے کہ اگر رب کی رحمت کے سو حصے ہیں تو اس میں سے ایک حصہ اس نے پوری دنیا میں تقسیم کر دیا ہے جس کی وجہ سے تمام مخلوقات ایک دوسرے پر رحم کرنے کی مجاز ہیں۔ ایمان کی مضبوطی کے لیے مالک کو پوری کائنات کا بادشاہ تصور کر لیا جائے اور تمام دنیوی معاملات کی نگہداشت "القدوس کے حوالے کر دی جائے تو آپ کے مانگنے میں یقین پیدا ہوگا۔ جب ہم "الرب" جیسی صفت کو دیکھتے ہیں تو ربوبیت کے تفاضوں میں سب سے پہلے یہ پہلو نکلتا ہے کہ وہ تمام کائنات کا منتظم ہے اور تمام مخلوقات اپنی حاجات کے لیے اس کی جانب رجوع کرتی ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے "وہ کرتا ہے جو وہ ارادہ کرتا ہے"۔
ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کتنے معاملات ہیں جن میں اپنے تئیں ارادہ کرتے ہیں مگر منشاء الہی کے بغیر ہمارے ارادے کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے۔ یعنی ارادے باندھنے سے ٹوٹنے کا سفر یقینناً معرفتِ خداوندی کی ہی اک کڑی ہے۔

