Akhir Zimmedar Kon Hai?
آخر ذمہ دار کون ہے؟
معاشرے کے بدلتے اطوار انسان کی سوچ پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر یہ اثرات مثبت ہوں تو انسان کامیاب و کامران کہلاتا ہے اور اگر منفی ہوں تو سارا دوش زمانے کی خرابی کو دے دیا جاتا ہے۔ گویا کہ انسانی نفسیات کا یہ عجب کھیل ہے کہ پہلے خود ایسے آلہ کار پیدا کیے جاتے ہیں کبھی انسانیت کی دھجیاں سرِ بازار اڑائی جاتی ہیں، کبھی بند کواڑ وں کے پیچھے لاشیں اپنی بے ثباتی پر بین کرتی نظر آتی ہیں یا پھر درندگی کی حد کو چھونے والے ہرکارے بنتِ حوا کی عصمت دری کرتے ہیں۔ معاشرتی بد عنوانی، استحصال، ناانصافی، کرپشن اور سفارش جیسے عوامل کاسامنا کرتے ہوئے ملک کے نوجوان کس طرح ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں؟
ایک نوجوان جو اپنی زندگی کے کم و بیش بیس سے بچیس برس تک تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کی جانب بڑھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب جگنو کی مانند چمک رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنی اور اپنوں سے جڑے رشتوں کی زندگی کو سنوارنے کا عزم لیے اپنی قابلیت کے امتحان کی غرض سےاربابِ اختیار کے سامنے پیش ہوتا ہے تو ذہن خود کو کامیابی کی سیڑھی چڑھتے ہوئےتصور کر رہا ہوتا ہے کہ اب تو محنت کا پھل ملنے والا ہے، اب تواس ملک میں میری بھی پہچان ہوگی اور میں بھی شان سے عہدہ دار کہلاوں گا۔ مگر صد حیف ابھی یہ مناظر ذہن کے پردے پر منڈلا ہی رہے ہوتا ہے کہ ادھر سے منادی کرا دی جاتی ہے کہ صاحبو! عہدے بٹ چکے ہیں۔ قابلیت اور اہلیت کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ نتیجیتاً ادارے میں منتخب شدہ عہدہ دار اپنی نشستیں سنبھال چکے ہیں اور بقیہ ماندہ امیدوار نا اہل قرار دئیے جا چکے ہیں اور وہ دوبارہ سے اس بھیڑ چال کا حصہ بننے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کیا انسان روئے زمین پر آتے ہی ذہنی شکستگی کا شکار ہو جاتا ہے یا پھر اس کے ارد گرد کا معاشرہ اور اس کے بنائے ہوئے قوانین نوعِ انسان کی ذہنی آسودگی کو کچلتے ہیں؟ ہر طرف یزیدیت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ ظلم اور نا انصافی کی یہ چکی مسلسل چلتی ہی جاتی ہے اور پستا صرف وہ ہی ہے جو حق و انصاف کا داعی ہوتاہے اور معاشرے کے ریت و رواج سے ذرا ہٹ کر خود پر باغی ہونے کا ٹھپہ لگائے کھڑا ہے۔ ذرا سوچیے! کہ آخر ذمہ دار کون ہے؟ انسان یا معاشرہ۔

