Tuesday, 25 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aroob Siddiqui
  4. Intezar

Intezar

انتظار

ایم اے انگلش کے سلیبس میں ایک ڈرامہ ہے جس کا نام ہے Waiting for the Godot جسے Samuel Beckett نے لکھا ہے۔ اس ڈرامے میں دو کردار ہیں جو پریشان حال ہیں اپنی زندگی کے مسئلوں سے پریشان ہیں زندگی سے بیزار ہیں اور اِس انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور اُن کو اِس مایوسی و نا اُمیدی سے نکالے اور اُن کی زندگی کے سارے مسئلے حل کر دے۔ وہ خود اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے بلکہ اِس انتظار میں ہیں کہ کوئی مسیحا آئے اور اُن کی پریشانیاں دور کر دے۔

وہ انتظار کرتے ہیں ایک ایسے شخص کا جو اُن کے سارے مسئلے حل کر دے گا اور وہ انسان کبھی نہیں آتا اور وہ انتظار کرتے رہ جاتے ہیں اور ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے۔

اِس ڈرامے میں بے معنویت اور معنویت کا فلسفہ پیش کیا گیا ہے Existentialismکو ڈیفائن کیا گیا ہے۔ ڈرامے میں بتایا گیا ہے ہم اپنی پوری زندگی ہر چیز کا انتظار کرتے رہتے ہیں بچپن میں جوانی کا انتظار، جوانی میں کیریئر بن جانے کا انتظار، جاب کا انتظار، پھر شادی کا انتظار، اولاد کا انتظار، پھر اولاد کے بڑے ہو جانے کا انتظار پھر اُن کی خوشیاں دیکھنے کا انتظار، ہماری زندگی میں بس ایک انتظار ہے جو مسلسل چل رہا ہے۔ Samuel Beckett کہتا ہے "Waiting is the theme of life"۔

اس ڈرامے میں بہت سے پہلوؤں کو اُٹھایا گیا ہے جو اِس سے پہلے کبھی ڈسکس نہیں ہوئے تھے میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ اِس ڈرامے میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیں کسی بھی چیز کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جو کام ہمارے کرنے کا ہے وہ ہمیں خود کرنا چاہیے۔

اِس ڈرامے میں ایک پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ہم بھی اُن دو کرداروں کی طرح کچھ نہیں کریں گے اور ایک مسیحا کا انتظار کرتے رہیں گے تو ہم بھی انتظار کرتے رہ جائیں گے۔ اگر ہمیں اپنی زندگی کو بامقصد و بامعنی بنانا ہے تو ہمیں اُس کے لیے محنت کرنی پڑے گی کوشش کرنی پڑے گی اس طرح ہماری زندگی ایک مثالی زندگی بن جائے گی اور ہم زندگی میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کر لیں گے۔ لیکن اگر ہم بھی اُن کی طرح انتظار کرتے رہیں گے کسی اور کا، تو ہم بھی انتظار کرتے رہ جائیں گے اور خالی ہاتھ رہ جائیں گے زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

کچھ نہ کرنا اور صرف انتظار کرنا زندگی میں بے معنویت کو لے آتا ہے۔ باتیں کرتے رہنے اور سوچتے رہنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں۔ مسئلے حل کرنے سے حل ہوتے ہیں کام کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مسئلوں پر پریشان ہوتے رہتے ہیں، سوچتے رہتے ہیں اُن کی زندگی میں بے معنویت آجاتی ہیں اُنھیں اپنی زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے۔ اُن کی زندگی سے معنویت نکل جاتی ہے اور جب زندگی سے معنی نکل جاتے ہیں تب زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے اُنھیں لگنے لگتا ہے کہ زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں، زندگی میں کچھ نہیں ہے، زندگی بیکار ہے اور یہ سب کچھ، کچھ نہ کرنے اور سوچتے اور انتظار کرتے رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اِس ڈرامے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے حصّے کی محنت اور کوشش کرتے رہنا چاہیے محنت اور کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور انسان کی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنا دیتی ہے اور انسان کو اعلیٰ مقام پہ پہنچا دیتی ہے۔ جبکہ انتظار کرنے والے، سوچتے رہنے والے اور بے مقصد باتیں کرنے والے، باتیں کرتے رہ جاتے ہیں اور خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں اور اُن کی زندگی میں ایسی بےمعنویت آتی ہے کہ پھر زندگی میں کچھ نہیں بچتا اور وہ زندگی میں خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔

لہٰذا جو لوگ محنت کو اپنا شعار بناتے ہیں اور ایک بامقصد زندگی گزارتے ہیں وہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں اور کامیابی اُن کے قدم چومتی ہے۔

Check Also

Nao Biyahta Alfaz

By Abu Nasr