Monday, 06 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Koi Khwab Khareede

Koi Khwab Khareede

کوئی خواب خریدے

لندن کے پوش ترین سکوائر پر واقع ایک فائیو سٹار ہوٹل میں انٹر نیشنل لیگل کانفر نس جاری تھی اور قانون سے متعلق پاکستان سے چند نامور ترین نام کانفرنس میں موجود تھے۔ " آپ میرے ہیرو تھے۔ آگ لگا کے شہر میں، فتنے جگا کے دہر میں آپ کہاں چلے گئے؟ "۔ میں نے موقع پاتے ہی علی احمد کرد پر سوال داغ ڈالا تھا۔ 67 سالہ دهان پان اور پکے سے رنگ کے "جوان "علی احمد کرد کے چہرے پر ایک شر میلی سی مسکراہٹ ابھری مگر اس کی آواز میں بلا کاثبات تھا۔

"اس آسمان تلے ہر شخص کے ذمے ایک کام ہے۔ زندگی ٹھکانے لگ جائے اگر وہی ایک کام ہو جاۓ۔ بعض اوقات ایک بحران ایک آدمی کی تلاش میں ہوتا ہے۔ میں نے بھی ایک شوریدہ سر لہر کی سواری کی۔ اور بس "۔

" کیا بس اتنا ہی؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور پھر مجھے 2008 کے ایام یاد آۓ جب کالے کوٹ والے ایک دم حریت اور باغی پن کا استعارہ بن گئے تھے۔ جب ملتان کے ریجنل ٹیکس آفس میں، میں اپنے دفتر میں ڈپٹی کمشنر کا ٹیگ لگاۓ رشک سے سڑکوں پر موجود ان سول ججوں کی طرف دیکھتا تھا جو اپنے دفتروں سے ایک ایک کر باہر نکلتے تھے اور پاکستان کی اس نئی "جنگ آزادی "کا حصہ بن رہے تھے۔ اس جنگ کا جس نے ہمارا مستقبل کسی اور قلم سے لکھنا تھا مگر شائد ہم پچھل پیری تھے جتنے قدم آگے چلے، اتنے ہی پیچھے آگئے۔ کالے کوٹ میں سے حریت ختم ہو گئی، کالا پن اور کوٹ رہ گیا۔

مجھے اپنے جیسے ہی ایک شوریدہ سر اور رومانٹک افسر کی بات یاد آئی جو اس وقت ایک " حساس ادارے " میں ذمہ دار عہدے پر موجود تھا اور اس کی ذمہ داری کالے کوٹوں والوں کو لگام ڈالنے کی تھی۔ تاہم جب وہ مجھے ایک لہک کے ساتھ علی احمد کرد کی تقریر اور شعر یاد دلاتا تھاتو کہتا تھا کہ ہم کسی عہد کے خاتمے پر دستک دے رہے ہیں اور کوئی نیادر وازہ کھلنے والا ہے۔ علی احمد کرد۔ مٹھیاں بھینچ بھینچ کر لہرانے والا اور اپنے لمبے سفید بالوں کو جھٹکے دے دے کر حال کھیلنے والا اینگری ینگ مین " ہمارے لئے ایک نئے عہد کا نقیب تھا۔

بلوچستان میں ایک معزز سیاسی خاندان میں آنکھ کھولنے والے علی احمد کر د کا انداز بچپن سے ہی نرالا تھا۔ 17 سال کی عمر میں وہ پہلی مرتبہ جیل میں گیا اور پھر اس کا جیل سے "جھاکا" اتر گیا۔ اس نے مختلف آمروں کے خلاف جدو جہد میں عمر عزیز کے چھ سات برس سلاخوں کے پار گزار دیے مگر اسے جیلیں نہ توڑ سکیں۔ اس نے قانون کا امتحان بھی پولیس سے بھاگتے بھاگتے دیا۔ پاکستان میں عموما وکیل بننا انتخاب سے زیادہ تکے کا کمال ہو تا ہے اور علی احمد کرد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

"سر" میں اکیلا کیا کر سکتا تھا یا کر سکتا ہوں؟ "اس نے بے ریا مسکراہٹ سے مجھے جواب دیا، تاہم میں ابھی بھی اپنے شکوے پر مصر تھا۔ "آئی ڈڈ مائی جاب۔۔" اس نے قدرے لاپرواہی سے کہا، مگر اس کے انداز سے مجھے ایپل کے بانی سٹیو جابز کی بات یاد آئی اور یہ جواب شکوہ کا وقت تھا۔ جابز نے کہا تھا" نکلو اور کائنات میں ڈینٹ ڈال دو" آمر کی حکومت میں دراڑ ڈالنے والے لوگوں میں علی احمد کرد بھی شامل تھا۔

" دیکھیں سر دو چیزیں الگ الگ ہیں۔ ایک ہے وہ جدوجہد جو ہم نے افتخار چودھری کے لئے کی، بلکہ اس کے لئے نہیں قانون کی سربلندی کے لئے کی۔ وہ تو پس ایک استعارہ تھا، چیف جسٹس کی بحالی کی جدوجہد پاکستان کی تاریخ کا انمٹ واقعہ ہے۔ ہم وکیلوں نے آمریت کے سامنے بند باند ھا اور اس کا کڑاکا نکال دیا۔ پھرانہونی ہو گئی اور چیف جسٹس بحال ہو گیا۔ پھر ہمارا کام ختم اور چیف کا کام شروع، THAT IS IT " اس نے ہاتھ لہرا لہرا کے قدرے جذبے سے کہا مگر میں بھی کہاں باز آنے والا تھا۔

انٹر نیشنل لیگل کا نفرنس کے آغاز میں جب میں نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان بنانے والے اہم ترین تین نام و کلاء میں سے تھے تو بہت سے چہروں پر حیرانی کا تغیر دیکھنے میں آیا تھا۔ علامہ اقبال پاکستان کا خواب دیکھنے والے چو ہدری رحمت علی پاکستان کا نام تجویز کر نے والے اور محمد علی جناح پاکستان کے بانی سب وکلاء کی صف میں شامل تھے اور یہی نہیں بانیان پاکستان کی صف اول میں اور بھی کئی وکیل براجمان تھے۔ تبھی تو وکلاء کا کردار پاکستان میں دنیا کے بہت سارے ممالک سے زیادہ مؤثر اور فیصلہ کن رہا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ملک کی جنگ اس کے بانی نے قانون اور دلیل کے زور پر جیتی وہی عشروں سرز مین بے آئین رہا۔

خطاب کے لیے بلاتے وقت علی احمد کرد کو میں نے مائیک ہاتھ میں پکڑا دیا تو وہ بات کرتے کرتے بجھ سا گیا۔"ہاتھ باندھ دیے اب بھلا خاک تقریر ہو سکتی ہے۔" اس نے منہ ہی منہ میں ایک بے تاب مقرر کی طرح شکوہ کیا۔ مگر دھیرے دھیرے اس کے لہجے میں طغیانی پڑھتی چلی گئی۔ دس منٹ میں لائرز موومنٹ کا سرخیل علی احمد کرد ہمارے سامنے تھے جس کے ہاتھ بندھے تھے مگر اس کا باغیانہ لب و لہجہ اس کی کسر پوری کر رہا تھا۔

"لوگ کہتے ہیں کہ وکیلوں نے مایوس کیا۔ بتاؤ مجھے وکیل اور کیا کر تے؟ و کیلوں کے پاس ٹینک توپیں اور میزائل نہیں ہوتے۔ مگر ہم سے جو ہو سکتا تھا وہ ہم نے کیا۔ ہمیں پتہ تھا کہ جس کے لئے یہ سب کر رہے ہیں وہ تو بس علامت ہے ہم نے ماریں کھائیں، جیلیں کاٹیں، وکیل جس کی دیہاڑی ہی دوسرے کی جیب پر نظر رکھنے میں بنتی ہے، اس نے روزی کو لات مار دی، اتناہی ہمارے بس میں تھا کہ ہم اپنی سوئی ہوئی قوم کو جگادیں " یہاں پہنچ کر اس کا لہجہ کچھ ٹوٹ سا گیا۔

"جب 15 مارچ آگیا اور چیف جسٹس کی کرسی تگڑی ہو گئی تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا اس کادوش ہمیں نہیں دیا جاسکتا" کرد کے الفاظ کا مطلب جو کچھ بھی ہو، مگر لہجہ کرچی کرچی ساتھا۔ " کچھ اندازہ کریں "، بولتے بولتے وہ ایک دم دھاڑا" یہی وہ وقت تھا جب ہمیں اپنے چیف جسٹس کو بتانے کی ضرورت تھی کہ مائی لارڈ، کچھ شرم کریں، اپنی عدالت اور لوئر جوڈیشری کے حالات کی طرف دھیان دیں۔ اس ملک کے مظلوم عوام آپ کی عدالتوں میں رل گئے"۔

" جس شخص کے لئے ہم نے ماریں کھائیں وہ اب سکیورٹی کے حصار میں ہے۔ میں اسے کہتا ہوں کہ ہمت ہے تو ہماری طرح اپنے لوگوں کے درمیان میں آئیں۔ اس نے دائیں مٹھی بھیجتے ہوۓ پھر تال میل کے ساتھ سفید بالوں کی لٹیں ہوا میں لہرائیں۔ پھر جسٹس سعید الزمان صدیقی کی باری آئی تو مجھ سے نہ رہا گیا۔"ہم سب کھڑے ہو کر اس ہیرو کا استقبال کریں گے جس نے ایک ڈکٹیٹر کے سامنے سرنگوں ہونا گوارہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اس کارنامے کا خراج قوم سے مانگا"۔ ستر کے پیٹے میں جسٹس صدیقی متانت اور وقار کا پیکر تھے۔ کانفرنس کے شرکا دیر تک احترام میں کھڑے رہے۔

" سر، میں تو خواب فروش ہوں۔ جب وکلاء تحریک میں مجھ جیسے کا خواب بک گیا۔ تو آنے والے بھلے وقتوں میں کسی اور کا خواب بھی سچا ہو گا، جو ملک خواب دیکھتے دیکھتے بنا، خواب دیکھتے دیکھتے چل رہا ہے، اس میں خواب بکتے رہنے چائیں " علی احمد کرد نے ایک بھر پور الوداعی جپھی ڈالتے ہوئے کہا۔ میں نے سر ہلایا اور مسکرایا۔ یہ بات تو ہمارے درمیان قدر مشترک تھی۔ میں بھی تو اسی کی طرح خواب فروشوں کے قبیلے سے ہی تھا۔

Check Also

Pakistani Siasat Ka Afsanvi Tajzia

By Khalid Isran