Shakhsi Aur Fikri Azadi
شخصی اور فکری آزادی
دنیا میں ہر شخص کو آزاد پیدا کیا گیا۔ ہر شخص کو اپنے مذہبی، معاشرتی، معاشی اور سماجی اقداروں کے ساتھ مکمل طور پر جینے کا حق ہے اگر غیر جانبداری اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہمیں تمام انسان اپنے بھائی نظر آئیں گے ظاہر ہے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خامی موجود ہوتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے نفرت کی جائے اگر وہ آپ سے مالی اور خاندانی لحاظ سے کم ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اور اس کی آنے والی نسل کو غلامی کی لعنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھنسا دیا جائے۔ ان کے تمام تر حقوق و فرائض کو ختم کر دیا جائے۔ ان پر زندگی گزارنے کا دائرہ کار تنگ کر دیا جائے۔
"ڈاکٹر علی شریعتی" اپنی کتاب "ہاں دوست ایسا ہی ہوتا ہے" میں بیان کرتے ہیں کہ "ایک بار ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جاکر تاریخی عمارتوں کو دیکھیں کہ جو بہت قدیم اور اپنا مقامات رکھتی ہیں۔ جب وہ اس دور کی اہم عمارتوں کو دیکھنے گئے پہلے تو خوش ہوئے کہ دیکھئے بنی نوع انسان نے کیسی حیران کن عمارتیں بنائی ہیں۔ مگر پھر یکایک ان پر سکتہ طاری ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا دراصل اگر ان تمام عمارتوں کو انسان غیر جانبداری سے دیکھے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ ان میں ہمارے بزرگوں کی اینٹوں کی بجائے ہڈیاں، گارے کی بجائے گوشت اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ ان پر شروع ہی سے ظلم ہوتا رہا ہے جس کی مثال نہیں ملتی کبھی ان کے رنگ کا، کبھی نسل، کبھی مذہب تو کبھی علاقہ کو دیکھ کر ان پر نفرت و ظلم کے پہاڑ ٹوٹے۔ ان کو معاوضہ ملتا تھا کہ وہ اپنا وہی دن با مشکل گزار سکتے کل کے لئے پھر دوبارہ انہیں اسی طرح محنت و مشقت کرنے کا کہا جاتا رہا۔"
زمانے نے اپنے تیور بدلے پھر سنا گیا ایک شخص مکہ میں نبوت کا دعوی کر رہا ہے۔ لوگ اس جانب بھاگے دیکھیں کون ہے؟ کیا ہے؟ وہ واقعی پیغمبر ہے یا نہیں۔ میں بھی چلا گیا جب دیکھا کہ وہ شخص ہر ایک سے بہترین اخلاق و آداب سے پیش آرہا ہے۔ غریب و امیر کی عزت، رنگ، نسل اور علاقہ دیکھے بغیر مساوات کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے مخالف لوگ بھی اس کے اخلاق کو دیکھ کر اس پر ایمان لا رہے ہیں وہ ان تمام زنجیروں کو توڑنا چاہتا ہے جو کہ لوگوں کے دلوں، گردنوں اور پیروں پر باندھی گئی ہیں۔ لوگ چپ چاپ ظلم سہہ رہے تھے۔ اس عظیم الشان شخصیت نے ان لوگوں کو پستی سے نکال کر بلندی کے اعلی درجے پر فائز کر دیا۔ چاہے وہ بلالؓ حبشی ہوں یا جناب سلمانؓ۔ ان کے جانے کے بعد وقت گزرتا گیا پھر مجھے محسوس ہوا کہ دنیا میں وہی پرانا نظام واپس لوٹ رہا ہے پھر غلامی واپس آ رہی ہے۔ ایک بار پھر لوگ ظلم و بربریت کا نشانہ بنیں گے۔ ان پر دوبارہ سے زندگی تنگ کر دی جائے گی۔ چلتے چلتے میں انیسویں صدی میں پہنچ گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں پہ ظلم و بربریت ہو رہی تھی۔ ان کی جان، مال، گھر حتیٰ کہ عزت محفوظ نہیں تھی۔ وہ غلامی کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ اس صدی میں بہت سی قوموں نے آزادی و خودمختاری حاصل کی۔ دنیا نے نیا رنگ بدلا۔ ان قوموں میں برصغیر کی ایک ایسی قوم جو کہ خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھی جاگ اٹھی۔ انہوں نے اس وقت علامہ محمد اقبال کے خواب کو بڑی قربانیوں کے بعد 14 اگست 1947ء کو سچ کر دیا۔ پاکستان بن گیا۔ وہ تمام غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئی۔ اس تمام جدوجہد کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ یہ اسلامی ملک ہو گا۔ جس میں مسلمان اپنے مذہبی، معاشرتی اور معاشی اقداروں کے ساتھ پروان چڑھتے ہوئے دنیا میں سرفراز ہوں گے۔ یہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی و خود مختاری حاصل ہوگی۔ ہر شخص چاہے وہ جس مذہب، ذات اور رنگت سے تعلق رکھتا ہے آزادی کے ساتھ جیے گا۔ پاکستان بننے کے بعد قوم 14 اگست کے دن ہی کو یوم آزادی مناتی رہی مگر پھر بعد میں 9 جولائی 1948 کو پاکستانی ڈاک پر 15 اگست یوم آزادی قرار دیا گیا۔ لیکن پھر تبدیل کر کے 14 اگست کو ہی منایا جانے لگا جیسے کہ آج بھی ہے۔
خیر 14 اگست ہو یا 15 ہمیں آزادی تو ملی۔ ہمیں چاہیئے کہ 14 اور 15 اگست کے درمیانی لمحات میں خود کو اور اپنی قوم کو دیکھیں۔ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم اس نظریے اور فلسفے پر چل رہے ہیں جو قائد و اقبال کا تھا؟ کیا ہم وہاں ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا؟
دراصل ہم اپنے نظریے و مقصد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم 73 سالوں میں بھی ایک اعلیٰ ترقی یافتہ قوم وملت نہیں بن سکے۔ آج ہمارے ذہن شخصیت پرستی کے ماہل ہو چکے ہیں۔ ہم دن بدن تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ ہمیں آج اپنی آزادی کی قدر نہیں ہے۔ پہلے ادوار میں غلاموں کو یہ معلوم تو تھا کہ وہ کس کے قیدی ہیں؟ ان کے پیروں، گردنوں اور ہاتھوں میں زنجیریں تھیں۔ مگر ان کے اذہان آزاد تھے۔ وہ ظاہری طور پر غلام اور اندر سے ایک آزاد و خودمختار لوگ تھے۔ مگر آج ہم ظاہری طور پر آزاد مگر اندر سے ایک غلام ہیں۔ ہماری سوچ، عمل اور یقین غلام ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری قوم کو یہ محسوس ہی نہیں ہورہا کہ انہیں کس نے غلام بنا رکھا ہے۔
کیا ہم نے آگے ایسے ہی سفر کرنا ہے؟ اپنی نسلوں کو غلام بنا کر رکھنا ہے؟ کیا پوری زندگی مسائل پر رونا دھونا، چیخنا اور چلانا ہے مگر انکے حل کے بارے میں نہیں سوچنا؟ آج سیاستدانوں اور ان کے مال و دولت کو چھوڑئیے خود پر نظر کیجئے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ عوام بے حد بے حس ہو چکی ہے۔ ان میں اخلاقیات اور مذہب نامی کوئی چیز ہی نہیں رہی ہے۔
"گزشتہ دنوں ایک کار والا ریڑھی کے سامنے رکا۔ اس سے کچھ سامان لیا ریڑھی والے نے 960 روپے واپس کیے۔ مگر اس کے جانے کے بعد جب دیکھا تو وہ ہزار کا نوٹ جعلی تھا۔" اب مجھے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اس ریڑھی والے پر کیا گزری ہوگی جس کا کل سامان بھی ایک ہزار روپے کا نہ تھا۔
اگر آپ آج کسی بھی محکمے کو دیکھیں اس میں زیادہ تر جعلی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کہ دو نمبر کام کر کے دن بدن پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہماری قوم آج فکری طور پر غلامی میں داخل ہوچکی ہے۔ اگر ہم اس سے آج نہ نکلے تو ہم ایسے ہی گامزن سفر رہیں گے اور تنزلی کی جانب جائیں گے۔ جس چیز کا ہم Trend دیکھتے ہیں اسی جانب چل پڑتے ہیں۔ آج ہمیں فضول کاموں کو چھوڑ کر صرف اور صرف خود کا احتساب کرنا ہوگا کہ میں کہاں کھڑا ہو؟ جو ملک و ملت کی طرف سے مجھ پہ زمہ داری ہے کیا میں اسے ادا کر رہا ہوں؟ میں اس پاک دھرتی کے لیے کیا کر رہا ہوں جس نے مجھے اتنی سہولیات سے نوازا ہے؟ میں نے اور میرے بچوں نے اسی پاکستان میں مرنا جینا ہے۔ دراصل جب ہم لوگ ظاہری آزادی پر خوشی منانے کی بجائے فکری آزادی حاصل کر کے خوشی منائیں گے تو پھر مزہ آئے گا پھر ہم ترقی کریں گے۔ پھر ہم غلامی سے نکلیں گے۔ ہم لوگ تو خود اپنی آنے والی نسلوں کو غلامی جیسی لعنت سے دوچار کرنے جا رہے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا ہوگا۔ ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے نظریہ یاد کرنا ہو گا۔ ہمیں غلامی سے نکل کر اب فکری آزادی حاصل کرنی ہو گی تاکہ یہ ملک دنیا کے عظیم ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکے۔ دعا ہے پاکستان ایک بار پھر اپنے کھوئے ہوئے مقام و مرتبہ کو دنیا میں حاصل کرے اور رات دگنی دن چگنی ترقی کرے۔
چشم دل کھول کر چل ارباز قائد و اقبال کے نظریہ پر
تجھے اور بھی کئی دنیا میں چل کر پاکستان بنانے ہیں
پاکستان زندہ باد
قائد اعظم پائندہ باد