Sabar O Tahammul
صبر و تحمل
اس دنیا میں جس شخص کو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ صرف اور صرف صبر و تحمل ہی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اللہ رب العزت نے جسے بھی سرفرازی و سربلندی عطا کی وہ صرف صبر و تحمل کی وجہ سے ہی عطا کی۔ اگر آپ انبیائے کرامؑ کی زندگی کا تصور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کی زندگی میں صبر و تحمل ایک اعلیٰ درجہ رکھتا تھا وہ حضرت یوسفؑ کی جدائی پر حضرت یعقوبؑ کا ہو یا حضرت یونسؑ کا مچھلی کے پیٹ میں ہو یا پھر حضور اکرم ﷺ کا طائف کے ظلم و ستم، مکہ کے ہموطنوں کی سازشوں یا پھر غزوات کے میدان میں ہو۔ آپ کو صبر و تحمل ایک اعلیٰ مثال کے طور پر ملے گا۔ آپ نے کبھی سوچا کہ" اللہ رب العزت نے جس اپنے پیارے بندے کو جتنا بھی بڑا مقام و مرتبہ دیا ہے ان کو اتنے ہی بڑے امتحان میں صبر و تحمل کے ساتھ پایا ہے۔ جس بھی بندے نے جتنا صبر کیا اسے اتنا نوازا۔ اگر آپ اہل بیتؑ علیہ الصلاۃوسلام اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اٹھا کر پڑھیں تو ان میں بھی صبر و تحمل اعلیٰ نمونہ و مثال نظر آئے گا۔"
میرے آج کے اس موضوع کا مقصد صرف یہی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں صبر و تحمل نہیں رہا۔ اگر ہم سے اللہ رب العزت تھوڑا سا امتحان لے لیں تو ہم لرزنا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم میں آج قوت ایمانی کی کمی ہے اس کے علاوہ ہمارے اردگرد افراد افراد کو ہی زندہ دفنانے پر تلے ہوئے ہیں انسان انسان کا دشمن بن چکا ہے اگر آج کسی سے انجانے میں غلطی ہو بھی جائے تو لڑائیاں طول پکڑ جاتی ہیں۔
"مجھے ایک بار اپنے ایک پیارے دوست جون شاہ صاحب کے ساتھ لیہ سے چوک اعظم بسلسلہ ضروری کام جانا تھا میں صبح سویرے اٹھا تیاری کر کے تقریبا 7:30 بجے کے قریب اس کے گھر پہنچا جناب کی محبت ہی تھی کہ وہ میرا دروازے پر ہی انتظار کر رہے تھے پھر ہم دونوں ایک دوست کے گھر گئے وہاں سے کچھ کاغذات لیے اور پھر جانبِ منزل رواں دواں ہوئے۔ دوستو! ہم ابھی لالا زار کے قریب ہی پہنچے تھے کہ دو موٹر باہیکس کے درمیان ایکسیڈنٹ دیکھا۔ چوٹیں معمولی سی تھی مگر اس حادثہ میں اہم بات رویہ تھا۔ جیسے میں نے پہلے بیان کیا غلطیاں ہو جاتی ہیں مگر ان کے بعد صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن وہاں ایک صاحب کا دوسرے کے ساتھ رویہ نہایت ہی بیہودہ تھا۔ دوسرا شخص یہ بار بار کہہ رہا تھا اگر مجھ سے غلطی سرزد ہوئی ہے تو میں معافی کا طلبگار ہوں مگر وہ مزید آپے سے باہر ہو رہا تھا اس کے بعد ہم پھر اپنے سفر کو رواں دواں ہو گئے۔"
یہاں پر بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر انسان انتہائی باریکی اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھے تو صبر و تحمل میں نامی کوئی چیز ہی نہیں ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گھتم گھتا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر سیاسی کارکنوں کو دیکھیں تو وہ بھی دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شخصیت پرستی اتنے عروج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو محسوس ہی نہیں ہورہا کہ وہ کس راہ پر چل رہے ہیں؟ کیا وہ ایک اندھیرے گڑھے کی جانب رواں دواں ہیں یا پھر کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن ہیں؟ آج صرف عدم صبر و تحمل کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کی طرف گامزنِ سفر ہے۔ یہاں ایک دوسرے کے مذہب، زبان، علاقہ، رہن سہن اور رسم و رواج پر بھی دن بدن تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے معاشرے کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایسا معاشرہ کبھی ترقی یافتہ معاشرہ نہیں بن سکتا۔
اگر اس وقت ہمیں اپنے معاشرے اور اپنی قوم و ملت کو ایک اعلیٰ اور ترقی یافتہ قوم وملت بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا ہو گا ہر ایک کی مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور سماجی اقداروں کا ادب و احترام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے یا تو ہم اسے چھوڑ کر اپنی قسمت میں مسائل پر رونا، دھونا اور چیخنا چلانا لکھ دیں یا پھر اسے اپنا کر ایک الگ بہترین قوم بن کر دنیا کے سامنے آئیں۔ جس کا بنیادی مقصد عدل و انصاف ہو جو کہ انہیں قواعد و ضوابط پر مشتمل ہو جو کہ پاکستان بنتے وقت موجود تھے۔ اس وقت ہمیں زیادہ نہیں ایک بننے کے ضرورت ہے۔ دوسروں کو نہیں خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنا دیتا ہے۔ اگر ہم اسے اس وقت بھی نظر انداز کردیں گے تو شاید ہم انتہائی پستی کی اس گہرائی میں چلے جائیں جس سے نکلنا ہمارے لیے مشکل بلکہ ناممکن ثابت ہوگا۔ اپنے شعر ہی سے میں اختتامِ خیالات و اظہار کیے دیتا ہوں۔
گر چاہتے ہو سنورنا ہو اصول یہ تمہارا
ہر کام میں ہو صبر و تحمل کا مظاہرہ