Chaliye Choriye Ab Wo Daur Kahan
چلئیے چھوڑیئے اب وہ دور کہاں
اس دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا۔ انسان ہی وہ ہے جو کہ دوسرے لوگوں کا خاص خیال رکھے۔ اب تو لوگوں کے دکھ درد میں جانا رسم بن چکا ہے۔ البتہ کچھ علاقے ایسے ہیں جن میں لوگ اب بھی ہمدردی اور سچے دل سے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک دن میرے ہر دل عزیز دوست جون ریاض صاحب سے میری گفتگو مفلسی اور غربت پر ہوئی۔ جون صاحب جو کہ ایک اعلیٰ ظرف انسان ہونے کے ساتھ ساتھ با بصیرت انسان بھی ہیں۔ وہ عموماً چیزوں کو گہرائی میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سول ہسپتال لیہ کے سامنے سے ان کا گزر ہوا تو دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہاتھوں میں ماسک لئے کھڑے تھے۔ وہ ہر آنے والے کو اس حسرت سے دیکھ رہے تھے کہ وہ آئے گا۔ ان سے ماسک خریدے گا اور وہ رات کو کھانا کھائیں گے۔ یعنی کہ ان کے چہروں پر مکمل مفلسی جھلک رہی تھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ پورے ملک کا یہی حال ہے۔ حال ہی میں عالمی بینک کے سروے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح %30 ہے۔ جبکہ صرف پنجاب میں %38 بچے کی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اگر بخوبی دیکھا جائے تو ہمیں اس بات کا پتا چل جائے گا کہ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کون سی غلطیاں ہیں جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں؟
دیکھیے اگر آپ صبح اٹھتے ہیں جناب کا ناشتہ تیار، کالج گئے، واپسی پر دوپہر کا کھانا اور رات کے وقت بہترین ڈنر کر کے آپ کا سو جانا آسان ہے۔ مگر پورے دن محنت مزدوری کرکے جو شام کو اجرت ملے اس سے بچوں کا پیٹ پالنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر معاشرے میں بھوک کی بیماری بڑھ جائے تو اس معاشرے کا سفر کامیابی کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کے اندر جرائم میں دن بدن اضافہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی صاحب نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ؛
"کیا بے شرمی، بے رحمی اور خود غرضی ہے کہ انسان اپنے اردگرد بھوک، غربت، اسیروں کی سسکیاں، جلادوں کی دھاڑ اور مجبوروں پر تکلیفوں کے تازیانے دیکھے۔ مگر وہ شخص ان کا دفاع کرنے کی بجائے صرف اپنی نجات تلاش کرے یعنی حصول جنت کی کوشش کرے۔"
اس بھوک، غربت اور مفلسی کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں بلکہ ہم میں سے ہر شخص ہے۔ جو کہ یہ دیکھ رہا ہے کہ ہر طرف غربت ڈیرے ہیں۔ مگر وہ شخص اپنی نجات کی فکر میں ہے۔ آپ سے یہ کبھی نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کے ہمسائے نے نماز پڑھی تھی یا نہیں، روزہ رکھا تھا یا نہیں۔ بلکہ یہ تو خدا کے سوالات ہیں۔ جن کا جواب اسی نے لینا ہے۔ آپ سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کا ہمسایہ رات کو بھوکے بچوں کو سلا کر کیوں روتا رہا؟ وہ بھی تو آپ کی طرح ایک انسان تھا۔ کیا اس کے جذبات و احساسات وہ نہیں تھے جو تمہارے ہوتے تھے؟ کیا اس کا دل نہیں کرتا تھا کہ وہ بچوں کو کھلائے، پلائے اور پہنائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس وقت غربت بڑھتی جا رہی ہے؟ ایک دور تھا جب لوگ زکوۃ دینے گھروں سے نکلتے زکوۃ لینے والا کوئی نہ ملتا۔ غریب تک اس کا حق پہنچتا۔ مگر اب غریب ہی کے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے۔ ایک دو ماہ پہلے ایک ریڑھی والے کے پاس کار والا رکا۔ اس نے کچھ سامان خریدا اور اسے ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا۔ اس سے بقایا لیا اور چلتا بنا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس غریب نے ہزار روپے کو دیکھا تو وہ بالکل نقلی نوٹ تھا۔ اب بتلائیے وہ بیچارہ کیا کرتا؟ اس کی پورے دن کی کمائی کہاں گئی؟ وہ شخص گھر جاکر بچوں کو کیا یہ کہے گا کہ آج میرے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ناانصافی ہو گئی ہے؟ آج میں آپ کے لیے کچھ نہیں لایا آپ سو جائیں۔ انشاءاللہ کل اللہ رب العزت خیر کرے گا۔
آج معاشرے میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ساتھ غریب کا بھی خیال رکھے۔ اس کو بھی برابر جینے کا حق ملے۔ کیونکہ اس کا اور آپ کا خالق و مالک ایک ہے۔ بعض اوقات انسان سوچتا ہے کہ وہ دن کب لوٹ آئیں گے جب ریاست مدینہ کا اس معاشرے میں خوبصورت عکس دکھائی دے گا۔ جب انسانیت پر بات ہوگی۔ امیر اور غریب برابر ہوں گے اور عدل و انصاف کا نظام ہوگا۔ اگر ہم اب بھی چاہیں تو ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ اور ترقی اسی میں ہے کہ ہمارے ملک کا ہر فرد خوشحال ہو۔ اور یہ سب آپس میں ہمدردی اور احساس ذمہ داری سے ممکن ہے۔ ہمیں ان بچوں کا خیال کرنا ہوگا جو کہ نہ ہی اچھی تعلیم حاصل کر پا رہے ہیں اور نہ ہی اچھا کھا پی رہے ہیں۔ ہمیں ان کی زندگیوں کو خوشحال کرنا ہوگا تاکہ ان میں مفلسی اور غریب کا احساس پیدا نہ ہو۔ انشاءاللہ یہ دور جلد آہے گا۔ بقول منور رانا
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا