Banawati Log
بناوٹی لوگ
ہر سال کی طرح اس سال بھی 25 دسمبر آیا اور بالآخر اسکا سورج بھی قوم میں بغیر سوچ، فکر اور عمل پیدا کیے غروب ہو گیا۔ ہم نے بھی صبح صبح اٹھ کر اے قائد اعظم کی شان میں Status لگایا۔ Twitter پر Thank U Mr Jinnah کا ٹرینڈ چلا جس میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا۔ شاید ہی ان نوجوانوں میں کچھ ایسے ہوں جو اس راہ پر چل رہے ہوں جو جناح نے ان کے لیے منتخب کی ہے۔ کیونکہ اگر سب چل رہے ہوتے تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔ مجھ سمیت تو باقی تمام ماشاءاللہ اقبال ڈے اور قائد ڈے جوش و خروش سے منا سکتے ہیں بنا ان کے مقصد حیات کو جانے ہوئے۔ شاید ہم ہر سال ان کے نظریات و مقاصد کو بھول جاتے ہیں۔
اگر ہم تھوڑا سا تاریخ کے گرد آلود صفحات کو پلٹیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ملک بنانے کی کیا وجہ تھی؟ قائد نے بھی فرمایا تھا کہ پاکستان بننے کی وجہ نہ ہی انگریزوں کی چال اور نہ ہی ہندوؤں کی تنگ نظری تھی بس یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ اگر ہم اسی کو آگے لیے چلیں تو اس بات کا ادراک کرنا مشکل نہیں کہ اس وقت ملک کے کیا حالات چل رہے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر پاکستان آج دوسرے ممالک سے پیچھے ہے تو یہ صرف ہمارے اپنے اعمال ہی کی وجہ سے ہے۔ ہم نہ ہی اس کا زیادہ الزام سیاستدانوں پر ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے ممالک پر۔ ایک بہترین خطہ عرض پر موجودگی کے باوجود ہم پسماندہ ہیں۔ آج وقت یہ ہے کہ افغانستان جیسا ملک بھی ہمیں امداد دے رہا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب تک ہم ہاتھ پھیلائے رہیں گے ہماری دنیا میں کوئی عزت ہی نہیں ہو گی۔ یہ دوسرے ممالک پر ہے کہ وہ ہمارے وزیراعظم کے AirPort پر کپڑے اتروائیں یا پھر ہمیں وہ پروٹوکول نہ دیا جائے جو دوسرے ممالک کا ہوتا ہے۔
بات سیاستدانوں کی نہیں جو آج کچھ کے علاوہ باقی سیاست نام پر دھبہ ہیں۔ جنہوں نے کل محض عوام کو پاگل سمجھ کر دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ آج آل بچاؤ، کھال بچاؤ اور مال بچاؤ کے لیے ایک میز پر ہیں۔ یہاں بات عوام کی ہے۔ عوام کا طرز زندگی کیا ہے؟ اس وقت حالات یہ ہیں کہ غریب دن بدن غریب اور امیر دن بدن امیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جو کہ اسلام کے نام پر بنا ہو وہاں چوری، ملاوٹ، کرپشن، سود حتیٰ کہ بچوں کے ساتھ بھی زنا کیا جا رہا ہو اور سزا صرف ایک دو کو ملنے کے بعد نہ ملے۔ جہاں ایسے کسی ایک ایشو پر بہت زیادہ آواز اٹھائی جاتی ہو اور باقی تمام مسائل پر مصلحت سامنے آ جائے۔ وہاں پر خیر کی توقع لیے چپ بیٹھ جانا سب سے بڑی بے وقوفی اور ضمیر کے مردہ ہونے کی ایک دلیل ہے۔ جہاں پر اشخاص کا معاشرے کی بھلائی میں کوئی کردار نہ ہو ہر کوئی اپنی جان و مال و دولت کی فکر میں لگا رہے وہاں ترقی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اگر ہم ایک اور نقطہء نظر سے دیکھیں تو ایک ایسی قوم جس کے پاس خدا تعالیٰ کا دین اور محمد و آل محمد کی سیرت ہو اور ہو اس پر عمل کیے بغیر ترقی کا سوچیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ اسی وجہ سے تباہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ کیونکہ یہ ان کی سیرت پر عمل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ انہیں سب سے پہلے حرام جو کہ ان کے خون میں سرائیت کر چکا ہےاسے چھوڑنا پڑے گا اور ایسا کرنا ان کے لئے ایک طرح کی موت ہے۔ ایسے لوگ صرف ان کے نام کے محض زبانی نعرے ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ یہ اس زمہداری سے پچنا چاہتے ہیں جو ان پر عائد ہو چکی ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بناوٹی لوگوں کو اصل آئینہ دکھایا جائے ظاہر ہے برا مانیں گے مگر علاج یہی ہے۔