Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Urdu Adab Mein Razmiya Shayari

Urdu Adab Mein Razmiya Shayari

اردو ادب میں رزمیہ شاعری

ہندوستان میں امیر تیمور کے زمانے سے عزا داری اور تعزیہ کی روایت کا آغاز ہوا اسی طرح "مجلس شام غریباں" جو عزا داری کا ایک اہم حصہ ہے کی ابتدا لکھنؤ میں شروع ہوئی جو عرب سے آئے دو افراد کی مرہون منت ہے۔ یہ حضرات انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان آئے اور لکھنؤ کے ایک امام باڑے میں مقیم تھے۔

یوم عاشور کی شام کو یہ دونوں عرب مہمان امام باڑے ہی میں تھے وہیں مولانا سید کلب حسین مجتہد نے تجویز دی کہ فاقہ شکنی امام باڑے میں ہی کی جائے، جس کے اختتام پر لکھنؤ کی شیعہ معززین نے مجلس عزا کا اہتمام کیا اور ذکر اسیران اہلبیت کا ذکر ہوا۔ مجلس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال اسی مقام اور اسی وقت یہ محفل برپا ہوا کرے گی یوں مجلس شام غریباں کا آغاز لکھنؤ کے ایک امام باڑے سے ہوا اور پھر برصغیر کے تمام امام باڑوں میں یہ مجلس یوم عاشور کا ایک لازمی جز بن گیا۔

نوابین اودھ کے دور میں عزا داری کی روایات کو خوب سے خوب تر بنایا گیا۔

نواب آصف الدولہ۔ نواب غازی الدین حیدر اور نواب واجد علی شاہ نے اپنے اپنے دور حکومت میں ان رسومات کی شان و شوکت میں اضافہ کیا انہی کے دور میں کربلا سے متعلق روایات کو شاعری۔ نوحے۔ منقبت اور مرثیہ نگاری کے علاوہ داستان گوئی کے فن کو اعلی مقام ملا۔

اردو ادب میں زبان کی تمکنت۔ بانکپن۔ شان و شوکت۔ روانی۔ رعب داب اور واقعہ نگاری کو رثائی ادب سے عطا ہوا۔ مجالس میں پڑھے جانے والے مرثیے۔ نوحے۔ سوز خوانی۔ سلام۔ منقبت اور دوسری اصناف نے اردو کو نئے الفاظ اور اسلوب عطا کیے جو سننے والے پر ایک سحر طاری کر دیتے ہیں اور وہ خود کو اسی رزم کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔

لکھنؤ کے میر انیس اور میرزا دبیر نے قدیم عربی مرثیہ کو جدیدیت میں تبدیل کیا اور اپنے مرثیوں اور نوحوں کو ہندوستان کی تہذیب کے رنگ میں ڈھال دیا اور اسے گھر کے آنگن اور رشتوں تک لے آئے انہوں نے پھوپھی اماں۔ امو جان۔ بھائی بھتیجوں اور بھتیجی کی اصطلاحات استعمال کیں یہی نہیں بلکہ اہل تشیع نے اودھ کی ثقافت کو بھی ایک نیا رخ دیا۔ مجالس میں مرد شیروانی اور خواتین غرارہ پہنے شریک ہوتیں۔ غمزدہ چہرے۔ سوگوار آنکھیں۔ بکھری زلفیں۔ پان کی گلوریاں اور عطر پاشی کی روایات کو بھی ان محافل میں کسی طور زندہ رکھا جو اب ختم ہوا چاہتی ہے۔

مسلکی عقائد سے قطع واقعہ کربلا اور اس سے متعلق رزمیہ شاعری نے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب ہی نہیں بلکہ الفاظ اور استعاروں کا ایک خزانہ عطا کیا جس سے شیعہ۔ سنی اور بہت سے ہندو شاعروں نے بھی استفادہ حاصل کیا اور اردو ادب کو اعلی مقام تک پہنچایا۔

میرزا دبیر اور میر انیس نے اردو شاعری میں واقعہ کربلا سے متعلق جو شاعری کی وہ رثائی ادب کا شاہکار ہے۔ ان کے چند اشعار سنئیے الفاظ و استعاروں کو محسوس کریں کہ کس قدر بھاری بھرکم الفاظ اور کیسا منظر نامہ کے پڑھنے اور سننے والا خود اس معرکہ حق و باطل کا ایک کردار سمجھتا ہے اور اس رزم کا عینی شاہد بن جاتا ہے۔

میر انیس فرماتے ہیں۔

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں

ذرے کی چمک کو مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں

گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
ایک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں

ایک قطرے کو جو دوں بسط۔ تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کردوں

ماہ کو مہر کروں ذرے کو انجم کردوں
گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں

ایک جگہ فرماتے ہیں۔

درد سر ہوتا ہے۔ بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں

ذرا اس قطعہ میں بیان کئیے استعارے اور الفاظ کی بندش تو ملاحظہ ہو۔

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے

ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

کہیں وہ خانوادہ علی (رض) کی بے مثال شجاعت کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

بین کی یہ کیفیت ملاحظہ ہو انہوں نے لفظ "کمر" کو کس خوبصورتی سے شعر میں پرویا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔

رونے پہ باندھ لے جو میری چشم تر کمر
کیسی زمیں۔ آسماں پہ ہو پانی کمر کمر

ایک اور شعر ملاحظہ ہو۔

نازاں ہوں محبت پہ امام ازلی کی
ساری یہ تعلی ہے حمایت پہ علی کی

نہ صرف اہل تشیع بلکہ سنی علماء۔ شاعروں اور صوفیائے کرام نے بھی کربلا کو اسلام کی تجدید قرار دیا اور منقبت اور مرثیے لکھے مثلاً۔

حضرت جوش فرماتے ہیں۔

انسان کو بیدار تو ہو جانے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

کربلا سے متعلق چند متفرق اشعار۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین

سر داد دست نہ داد در دست یزید
حقا کہ بناء لا الہ است حسین

(خواجہ معین الدین چشتی رح)

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین، ابتداء ہے اسماعیل

علامہ اقبال

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک ضرب ید الہی ایک سجدہ شبیری

سید ناصر جہاں کا پڑھا مشہور نوحہ "گھبرائیں گی زینت" سن کر کس کا دل نہ پگھل جائے۔ یہ مرثیہ ایک ہندو شاعروں چھنو لال دلگیر صاحب کی عطا ہے جنہوں نے چار سو سے زیادہ مرثیے اور نوحے لکھے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے ہندو شاعروں نے واقعہ کربلا کی خوب منظر کشی کی ہے۔

شاعروں کے علاوہ مجتہدین۔ ذاکرین۔ نوحہ خواں اور داستان گو حضرات نے بھی اپنے اپنے فن کا خوب اظہار کیا اور داد پائی۔ علامہ رشید ترابی۔ جوش۔ نصیر ترابی۔ علامہ طالب جوہری کے علاوہ بے شمار ذاکرین نے فن خطابت کو عروج پر پہنچایا اور سننے والوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

لکھنؤ کے علاوہ۔ امروہہ۔ حیدر آباد دکن اور کئی دوسرے شہروں سے بھی ذاکرین۔ نوحہ خواں اور مرثیہ گو نے واقعہ کربلا اور اس سے جڑی شاعری پر بہت کچھ لکھا اور داستان گو حضرات نے واقعہ کربلا کو خوب بیان کیا۔

اس ضمن میں ریڈیو پاکستان کراچی اور ٹی وی نے بھی شاندار اور یادگار پروگرام پیش کئیے جو سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان پروگرامز میں شعلہ بیان مقرر اور ذاکرین نے واقعہ کربلا اور اہلبیت پر ہونے والے مصائب کو بڑی خوبی سے پیش کیا۔ علامہ رشید ترابی۔ نصیر ترابی۔ علامہ طالب جوہری اور دیگر علماء کی مجالس علمی ادبی اور معیاری ہوا کرتی تھیں جو زبان اور بیان کی اعلی مثال ہیں۔ اسی طرح نوحہ اور مرثیہ کے میدان میں کجن بیگم۔

مہناز بیگم اور ہمنوا۔ عزت لکھنوی۔ سید ناصر جہاں اپنی مثال آپ تھے۔ محفل مسالمہ اور شام غریباں کی محافل میں حضرت جوش ملیح آبادی۔ ضیاء محی الدین۔ بخاری صاحب۔ طلعت حسین اور دوسرے کئی حضرات نے جس طرح واقعہ کربلا کو پیش کیا وہ قلب و ذہن پر ایک گہرا تاثر تو چھوڑتے ہی ہیں ان صاحب علم حضرات نے اردو ادب کو اپنی آواز کی گھن گرج کے ساتھ الفاظ و ادائیگی کو نئے اسلوب بھی عطا کئیے جو بھلائے نہیں جا سکتے۔

اردو اہل تشیع اور رثائی ادب کی ہمیشہ مرہون منت رہے گی جس نے زبان و بیان کی شان و شوکت میں گراں قدر اضافہ کیا اور اسے زندہ رکھا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ رثائی ادب کی صنف کو نئی نسل تک منتقل کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوان جو اپنی زبان اور روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں جان سکیں کہ ان کے اجداد نے اردو ادب کو کس سلیقے سے سنوارا اور سجایا۔

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed