Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Ulema Ki Basti, Nagram (2)

Ulema Ki Basti, Nagram (2)

علماء کی بستی، نگرام (2)

مکین احسن لاہور سے نکلنے والے اخبار مشرق کے چیف ایڈیٹر تھے۔ نصیر احسن صاحب جو خاندان میں بلال کے نام سے پکارے جاتے تھے پاکستان کے آڈیٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ بابا کے مرحوم بھائی کی دوسری شادی سے بھی کئی بیٹے اور بیٹیاں تھیں جن میں قابل ذکر نام مبین احسن، ہلال احسن اور دو بیٹیاں صفیہ صدیقی اور ام سلمیٰ خاتون تھیں۔ مبین احسن صاحب کلکٹر کسٹمز اور ایف بی آر کے سابق چیئرمین تھے۔ ہلال احسن صاحب شپنگ کے شعبہ میں ایک بڑا نام تھے۔ صفیہ صدیقی لندن میں مقیم تھیں وہیں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایک اعلیٰ پایہ کی ادیبہ تھیں ان کی وفات پر بی بی سی کے نامور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی صاحب نے ایک تعزیتی مضمون "محلہ مولویانہ کی افسانہ نگار" لکھا جو کئی اخبارات کی زینت بنا۔ دوسری صاحبزادی سلمیٰ صدیقی مرحومہ مشہور زمانہ ادیب ابن صفی کی بیگم تھیں۔ ان کے صاحبزادے احمد صفی اپنے والد کی کتابوں کو محفوظ کرنے اور انہیں نئی نسل تک پہنچانے کے لیے تراجم کر رہے ہیں جو بہت ضروری ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بابا کراچی آ گئے اور ناظم آباد میں مقیم رہے۔ ان کے گھر پر علمی اور ادبی محفلیں بھی سجتیں اور کشف و کرامات پر بھی ذکر و بیان ہوتا جس میں شہر بھر سے ان کے معتقدین شریک ہوتے خاندان کے افراد بھی ان کی محفلوں میں شامل ہوتے اور دعائیں لیتے۔ میرے والد مرحوم پر بابا خاص توجہ اور کرم فرماتے جب بھی والد حاضری دیتے تو ان کا ماتھا چوم لیتے تھے۔

بابا نجم احسن نے پندرہ ستمبر 1976 کے دن اس جہان فانی سے کوچ کیا ان کی تدفین سخی حسن قبرستان میں ہوئی جس میں ہزاروں سوگواران شامل ہوئے۔

مولانا ابو الحسن علی ندوی:

آپ مولانا علی میاں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ عالم اسلام میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔ علی میاں کا تعلق نگرام سے تو نہیں تھا لیکن ندوہ کے وساطت سے نگرامیوں سے ان کا گہرا تعلق تھا خاص طور سے وہ ہمارے خانوادے سے بہت قریب تھے۔ ان کی متعدد تصانیف میں اہل نگرام اور عمائے نگرام کا ذکر ملتا ہے۔ مولانا اعلیٰ پائے کے محقق، اسلامک اسکالر اور ایک بین الاقوامی شخصیت تھے خاص طور سے دنیائے عرب میں ان کو بہت عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔

مولانا محمد اویس نگرامی:

مولانا محمد اویس نگرامی میرے حقیقی خالو تھے آپ کا شمار برصغیر کے جید علماء میں ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا محمد انیس مرحوم اور ندوہ کے دوسرے علما سے حاصل کی اس کے علاوہ انہوں نے دارلمصنفین اعظم گڈھ میں مولانا شبلی نعمانی کے ساتھ ان کی مشہور تصنیف سیرت النبی کی تیاری میں معاونت کی وہیں مولانا اویس نگرامی نے سید سلیمان ندوی کے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر الفوز الکبیر لکھی۔ مولانا نے ابن تیمیہ، ابن قیم اور شہ ولی اللہ دہلوی کی تصانیف پر بھی کام کیا۔ مولانا محمد ادریس نگرامی نے متعدد کتابیں اور مضامین لکھے جو دنیا بھر کی دینی درسگاہوں میں پڑھاتی جاتی رہیں۔ ان کی کئی کتابوں کا مقدمہ عالم اسلام کے نامور عالم و ادیب و مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے لکھا اور توصیف کی۔

دارلمصنفین سے واپس پر مولانا محمد اویس نگرامی ندوۃ العلوم میں شیخ التفسیر کے منصب پر فائز ہوئے۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت ہوئے اور ان کے خلیفہ ہونے کی سعادت بھی حاصل کی۔

مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب خطوط ماجدی میں ان کا اور ان کے خانوادے کا تذکرہ اور ان کی علمی خدمات کا تذکرہ بار بار کیا ہے۔ مولانا محمد اویس نگرامی نے عربی کے علاوہ بے شمار کتابیں اردو میں بھی لکھیں جو عوام الناس اور گھریلو خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں اور تفہیم دین کو فروغ ملا۔ ان کی چند مشہور کتابیں تعلیم القرآن، فقہ القرآن، قرآن کا مطالعہ کیسے، اصول حدیث ہیں۔

مولانا کے متعدد علمی اور تحقیقی مضامین "مضامین اویس" کے نام سے الفرقان، صدق جدید اور معارف میں شائع ہوتے رہے۔

مولانا محمد اویس نگرامی کے صاحبزادوں میں ڈاکٹر شعیب نگرامی۔ ڈاکٹر یونس نگرامی۔ ڈاکٹر یوسف نگرامی اور ڈاکٹر ہارون نگرامی نے بھی دینی علوم اور تحقیق میں بہت نام پیدا کیا اور اپنی خاندانی روایت کو مزید آگے بڑھایا۔

ڈاکٹر محمد شعیب نگرامی:

ڈاکٹر شعیب مولانا محمد اویس نگرامی کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپ ندوۃ العلوم لکھنؤ کے فارغ التحصیل عالم اور جامعہ الازہر قاہرہ سے اسلامی علوم میں پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی۔ وہ مصر۔ لیبیا اور سعودی عرب میں تدریس اور نشر و اشاعت کے شعبہ میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر شعیب نے کئی موضوعات پر جامعہ الازہر قاہرہ اور مدینہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور مدینہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔ ان کی متعدد کتابیں عربی زبان میں ہیں جو وہاں کے نصاب کا بھی حصہ بنیں۔ شعیب بھائی کا شمار دنیائے عرب کی معروف علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔

شعیب بھائی علم الحدیث کے بھی ماہر تھے۔ چونکہ قدیم عربی زبان عرب کی تاریخ اور عرب ثقافت پر ان کو عبور حاصل تھا۔ ریڈیو دمام سے ان کا ایک لائیو پروگرام "یہ حدیث نہیں ہے" کے عنوان سے کئی برس چلا جس میں وہ فون پر مختلف احادیث کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات اور ان کی صحت کے بارے میں جواب دیتے تھے۔

مولانا مودودی اپنی کتاب "ارض قرآن" کی تکمیل کے لیے جب سعودی عرب اور مصر میں ان مقامات تک گئے جن کا قرآن میں ذکر ہے تو سعودی حکومت نے شعیب بھائی کو مولانا کے ساتھ بطور لائیژان افسر مقرر کر دیا۔ وہ مولانا کے بہت قریب رہے اور ان کی علمیت کے معترف بھی تھے۔ ڈاکٹر شعیب نگرامی ان دنوں اپنے صاحبزادے کے ساتھ بحرین میں مقیم ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ان کو صحت و زندگی عطا فرمائے۔

ڈاکٹر محمد یونس نگرامی:

مولانا محمد اویس نگرامی کے بیٹے اور ڈاکٹر شعیب نگرامی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر یونس نگرامی بھی اپنے پرکھوں کی میراث کو آگے بڑھاتے رہے۔ انہیں نے بھی ندوۃ العلوم سے عالمیت کی سند حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور شعبہ عربی کے ڈین مقرر ہوئے۔ پروفیسر یونس نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کی ایک قد آور شخصیت تھے انہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہاں انہوں نے عرب دنیا کے نامور مفکر شیخ عنداللہ بن باز کے ساتھ رابطہ عالم اسلامی میں معاونت کی اور مسلمانوں کے مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ پروفیسر یونس نے اپنے بھائیوں کے برعکس ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور لکھنؤ لوٹ آئے اور علم و تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ وہ ایک اچھے ادیب نثر نگار، خطیب اور دانشور تھے۔ انہوں نے بے شمار مضامین لکھے متعدد کتابیں لکھیں اور مختلف فورم پر لیکچرز دیے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی مسائل کو اٹھایا۔ پروفیسر یونس نگرامی نے پیام انسانیت کے پلیٹ فارم سے بھارت میں ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دیا اور سیمینار منعقد کیے جن میں ہندوستان بھر سے سیاسی اور سماجی شخصیات شامل ہوتے رہیں۔ وہ مسلم انٹیلکچول سوسائٹی کے بانی اور یوپی اردو بورڈ کے تین بار چیئرمین بھی رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے پروفیسر یونس کو بھارت میں اسلامی امور کا مشیر مقرر کیا جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔

انکے حلقہ احباب میں ہندوستان کی ممتاز سیاسی، سماجی اور علمی شخصیات شامل تھیں۔ پروفیسر یونس کی علمی خدمات کے اعتراف میں بھارت کے صدر نے ایوارڈ سے نوازا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سلیکشن کمیٹی میں اپنا نمائندہ خاص مقرر کیا۔

پروفیسر یونس نگرامی کا مختصر علالت کے بعد مارچ سنہ دو ہزار ایک میں لکھنؤ میں انتقال ہوگیا ان کی تدفین میں ہزاروں سوگواران نے شرکت کی۔

ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی:

نگرامی گھرانے کے ایک اور چشم و چراغ ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی بھی ہیں جو مولانا محمد اویس کے تیسرے صاحبزادے تھے۔ اپنے بھائیوں کی طرح ڈاکٹر یوسف نے ابتدائی تعلیم مدرسہ معدن العلوم سے حاصل کی اس کے بعد عالمیت کی سند ندوۃ العلوم لکھنؤ سے حاصل کی۔ ڈاکٹر یوسف نے علیگڑھ اور لکھنؤ یونیورسٹی سے بھی فاضل تفسیر کی ڈگری لی۔ ڈاکٹر یوسف نے لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کیا۔ انہوں نے مزید تعلیم قاہرہ کی جامعہ الازہر یونیورسٹی سے حاصل کی اور وہاں سے بی اے آنرز اور ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ قاہرہ میں طالبعلمی کے زمانے میں وہ قاہرہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔ بعد میں وہ سعودی عرب چلے آئے اور اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور ایڈوائزر مقرر ہوئے جہاں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز نے ان کی صلاحیتوں کو خوب سراہا۔ ڈاکٹر یوسف نے متعدد مقالے اور مضامین لکھے انہوں نے عربی زبان میں مختلف علمی اور تحقیقی موضوع پر دس سے زیادہ کتابیں لکھیں جن میں بیشتر کتابوں کو سعودی حکومت نے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے تقسیم کیا۔ ڈاکٹر یوسف سعودی ٹی وی چینل پر عربی اور اردو میں پروگرام کرتے تھے۔ وہ ایک عربی اخبار کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

ڈاکٹر یوسف نگرامی ان دنوں لکھنؤ میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور جزوی طور پر ندوۃ العلوم اور لکھنؤ یونیورسٹی میں بحیثیت اعزازی استاد درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر ہارون نگرامی:

"ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے مصداق مولانا محمد اویس نگرامی کے چوتھے صاحبزادے ڈاکٹر ہارون نگرامی بھی اپنے خاندان کی علم اور دینی روایات کو آگے بڑھاتے رہے۔ انہوں نے بھی اپنے تینوں بڑے بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ندوۃ العلوم سے عالمیت کی سند حاصل کرنے کے بعد جامعہ الازہر قاہرہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بھارت میں سعودی عرب کے سفیر یوسف فوزان نے اس ہونہار نوجوان کو مدینہ کی جامعہ اسلامیہ میں اسکالر شپ کے لیے منتخب کر لیا۔ ڈاکٹر ہارون سعودی عرب کے اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھی ایک طویل عرصے تعینات رہے۔

ان کے مضامین اور تراجم لکھنؤ سے نکلنے والے معتبر اخبار قومی آواز میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران ڈاکٹر ہارون جدہ سے شائع ہونے والے اردو نیوز میں بھی بطور صحافی اور مترجم کام کرتے رہے۔

ڈاکٹر ہارون نگرامی کا دو ہزار پانچ میں جدہ میں انتقال ہوا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔

ڈاکٹر عمار انیس نگرامی:

ڈاکٹر عمار مولانا محمد اویس نگرامی کے پوتے اور مرحوم پروفیسر یونس نگرامی کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ لکھنؤ ہی میں مقیم ہیں اور اپنے اجداد کی علمی وراثت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان کی شادی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینئر جناب ظفریاب جیلانی کی ہمشیرہ سے ہوئی۔ ڈاکٹر عمار نے لکھنؤ یونیورسٹی سے علم کی دولت پائی اور وہیں سے ڈاکٹریٹ بھی کی۔

عمار نگرامی اپنے مرحوم والد کی قائم کردہ مسلم انٹیلکچول سوسائٹی کے پروگرام کے تحت سماجی اور علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ممتاز سیاستدان اور اہم شخصیات ان کے کام کے معترف ہیں جو وہاں رہنے والے مسلمانوں کی فلاح کے کام میں پیش پیش رہتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید حوصلہ عطا فرمائے اور وہ اپنے پرکھوں کی علمی وراثت کے امین ہوں۔

علماء کی بستی نگرام کا ایک مختصر احوال آپ کی ذوق نظر ہے۔ یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ میں بھی اسی خانوادے کا ایک کم علم فرد ہوں جو اپنے بزرگوں کے پاؤں کی خاک کے برابر تو نہیں لیکن اتنا تو حق رکھتا ہوں کہ ان پر فخر کر سکوں۔

خدا رحمت کند ایں عاشقاں را پاک طینت۔

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam