Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Ulema Ki Basti, Nagram (1)

Ulema Ki Basti, Nagram (1)

علماء کی بستی، نگرام (1)

تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں دینی تعلیم کے لیے دو مدرسے یا مکتبہ فکر School of Thought مشہور تھے جنہیں عرف عام میں دیوبندی اور بریلوی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند یوپی کے شہر سہارنپور میں اٹھارہویں صدی کے آخر میں مولانا قاسم نانوتوی نے قائم کیا۔ اس مدرسے سے بڑے بڑے نامور عالم دین فارغ التحصیل ہو کر نکلے جنہوں نے برصغیر میں دینی تعلیم اور تبلیغ کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پیغام، ان کی تفہیم دین اور تحریک کو آگے بڑھایا۔ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دیوبندی کہلائے۔

دوسرا مکتبہ فکر جسے عرف عام میں بریلوی کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی بنیاد 1856 میں ایک جید عالم دین احمد رضا خان نے بریلی میں رکھی اور ایک مدرسہ قائم کیا جو بریلوی مکتبہ فکر کا مرکز بنا۔ بظاہر تو دیوبندی اور بریلوی دونوں ہی سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں لیکن دونوں کی تشریح دین ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے جس کی وجہ سے دونوں مکتبہ فکرکے پیروکار ایک دوسرے کی تشریح دین کے سخت مخالف ہیں اور اپنے مخالفین کو نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں بلکہ ان پر کفر تک کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔

لکھنؤ ہی میں ایک اور معتبر درسگاہ فرنگی محل کے نام سے موسوم ہے۔ فرنگی محلی بھی سنی العقیدہ ہیں یہاں کے فارغ التحصیل علماء بریلوی اور ندوی مکتبہ فکر کا خوبصورت امتزاج ہیں۔ آج بھی لکھنؤ میں رمضان اور عیدین کی رویت ہلال کا اعلان فرنگی محل ہی سے کیا جاتا ہے۔

ہمارا آج کا موضوع قصبہ نگرام اور وہاں کے علماء کے بارے میں ہے۔ یوں تو اس قصبے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ روایات کے مطابق اس قصبے کو راجہ نل نے بسایا تھا اور اس کا نام نلگرام تھا جو بعد میں بگڑ کر نگرام ہوگیا۔ اس قدیم شہر کے کھنڈرات آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اس قصبہ کی اصل وجہ شہرت اس کے قریب واقع دارالعلوم ندوۃ العلماء ہے جہاں سے فارغ التحصیل علماء اور اکابرین نے اس چھوٹے سے قصبے کو پورے ہندوستان اور عالم اسلام سے روشناس کرایا۔ اس لحاظ سے اگر نگرام کو علماء کی بستی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

1898 میں مولانا محمد علی مونگیری اور مولانا بلال حسنی ندوی نے لکھنؤ کے قریب ایک مدرسہ قائم کیا جس کا نام ندوۃ العلوم رکھا گیا جہاں کے فارغ التحصیل علما دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر سے قدرے مختلف اور دونوں انتہاؤں کے درمیان زیادہ روشن خیال اور کسی حد تک جدیدیت کے قائل تھے۔ ندوۃ العلوم لکھنؤ سے علماء کی ایک بڑی تعداد نکلی جنہوں نے دین کی تشریح کو دور جدید سے ہم آہنگ کیا۔ ندوۃ العلوم کے بانیان میں مولانا شبلی نعمانی اور اپنے وقت کے دیگر نامور علما بھی شامل تھے۔ مدرسہ ندوہ میں حصول علم کے لیے نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک سے بھی ایک بڑی تعداد میں طالبعلم آئے اور اس عظیم درسگاہ سے مستفیض ہوئے اور عالم اسلام میں بڑا نام پیدا کیا۔

میرے ددھیال کا تعلق اسی مردم خیز بستی سے ہے۔ نگرام میں یوں تو شرفا اور با علم افراد کی ایک بڑی تعداد تھی۔ لیکن یہاں دو گھرانے زیادہ معتبر مانے جاتے تھے ان میں ایک "مولویانہ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس گھرانے میں متعدد جید علما اور اسلامی اسکالرز پیدا ہوئے جن میں اکثر کا تعلق علم و تدریس سے تھا جنہوں نے نگرام کا نام روشن کیا۔ دوسرا گھرانا دنیا دار قسم کے افراد پر مشتمل تھا جو زمینداری کے علاوہ سرکاری ملازمتیں کرتے تھے۔ میرے اجداد اسی گھرانے سے متعلق تھے ہمارے جد مرحوم حسن اختر صاحب تھے جو برطانوی دور میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ مولویانہ اور حسن اختر صاحب کے گھرانوں میں قرابت داریاں بھی تھیں اور باوجود چھوٹے موٹے تنازعات رواداری اور میل ملاپ کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔

مجھے بجا طور پر فخر ہے کہ نگرام اور یہاں کے علماء میں اکثریت میرے بزرگوں کی تھی۔ اب ذرا سرسری طور پر ان نابغہ روزگار ہستیوں کا تذکرہ بھی ہو جائے جو میرے لیے وجہ افتخار ہیں۔

حافظ عبدالعلی نگرامی:

خانوادہ علماء نگرام کے جد اعلیٰ تھے ان کی ولادت اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ آپ اودھ کے نواب امین الدولہ کے مقرب خاص تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مولانا محمد حسین فرنگی محلی اور مولانا قاسم نانوتوی سے علمی استفادہ بھی حاصل کیا۔ آپ کا زہد و تقویٰ مثالی تھا ان کی درس و تبلیغ کی وجہ سے اودھ کے بیشتر علاقوں میں مختلف قسم کی بدعتوں کا خاتمہ ہوا۔ مولانا کی تعلیم اور تبلیغ کے باعث دور دراز کے افراد نے ان سے بیعت کی اور دین کی صحیح تعلیم سے روشناس ہوئے۔

مولانا محمد یحییٰ:

انہوں نے اپنے والد مولانا عبدالعلی نگرامی سے تعلیم و تربیت پائی ان کے علاوہ اپنے وقت کے مشہور علماء سے بھی استفادہ کیا اور مولانا محمد نعیم صاحب فرنگی محلی سے بیعت کی اور خلافت عطا ہوئی۔

مولانا محمد ادریس نگرامی:

آپ مولانا حافظ عبدالعلی نگرامی کے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے بھی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی بعد میں لکھنؤ میں اصول فقہ کی تعلیم مولانا عبدالحئی فرنگی محلی سے پائی۔ ان کے علاوہ آپ نے شیخ العرب و عجم حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی استفادہ حاصل کیا مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تحریروں میں ان کا تذکرہ کیا اور مولانا ادریس نگرامی کی توصیف کی۔ جب دارلعلوم ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد علی مونگیری کی خواہش پر اپنے بڑے صاحبزادے کو ندوہ میں داخل کر دیا۔ مولانا کو دعوہ و تدریس سے بہت دلچسپی تھی انہوں نے نگرام میں معدن العلوم کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ ان کی خط و کتابت اور رابطہ علمائے وقت سے قائم رہا جن میں شبلی نعمانی اور علماء فرنگی محل کے نام سر فہرست ہیں۔ مولانا محمد ادریس کو علم الحدیث سے خاص شغف تھا انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں جن میں تحقیق الموطا، القول المتین، الکلام الادریس کا نام سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد کتب کے تراجم بھی کیے۔

مولانا عبدالحکیم:

آپ حضرت مولانا عبد العلی صاحب کے داماد تھے۔ ایک اعلیٰ پائے کے عالم تھے۔ وہ نحو و صرف کے علاوہ فارسی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔

مولانا عبدالرحمٰن نگرامی:

کی ولادت 1899 میں نگرام میں ہوئی۔ آپ حافظ خلیل الرحمٰن کے صاحبزادے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر ہی پر ہوئی۔ گھر کا ماحول دینی و ادبی تھا بعد میں انہیں ندوۃ العلوم داخل کرا دیا گیا۔ انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے بیعت کی۔ مولانا عبدالرحمٰن کی علمیت کو علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب "یاد رفتگاں" میں بہت سراہا۔ علاوہ شبلی نعمانی کی دارلمصنفین میں علامہ سید سلیمان ندوی۔ مولانا مسعود ندوی اور دیگر اہل علم کے ساتھ کام کیا۔ مولانا امین احسن اصلاحی ان کے شاگردوں میں تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے جب کلکتہ میں مدرسہ اسلامیہ قائم کیا تو انہوں نے مولانا عبدالرحمٰن کو صدر مدرسہ مقرر کیا۔ درس و تدریس کے علاوہ مولانا عبدالرحمٰن نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور انجمن خدام المسلمین کے نام سے ایک جماعت بنائی جو شدھی تحریک کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی۔ وہ کلکتہ میں خلافت کمیٹی کے صدر بھی مقرر ہوئے۔

مولانا عبدالرحمٰن نگرامی نے متعدد مضامین لکھے ان کی تحریروں کو بھوپال کی بیگم صاحبہ نے بے حد پسند کیا۔

مولانا عبدالرحمٰن نگرامی کا انتقال عین جوانی میں ہوا ان کی رحلت پر اس وقت کی اہم ترین شخصیات نے تعزیتی مضامین اور خطوط لکھے جن میں عبدالماجد دریا آبادی۔ علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن نگرامی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ نے عبدالماجد دریا آبادی سے عقد ثانی کر لیا تھا۔

حاجی محمد احسن وحشی نگرامی:

اردو ادب و انشا سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں وحشی نگرامی کا نام غیر معروف نہیں۔ انہوں نے متعدد اصلاحی ناول اور مضامین لکھے۔ وہ دینی علوم میں بھی معتبر سمجھے جاتے تھے۔ میرے خالو مولانا محمد اویس نگرامی شیخ التفسیر ندوۃ العلوم سے بیعت تھے۔ عشق نبوی میں سرشار اور سفر حجاز کے مشتاق تھے۔ کہتے ہیں ایک رات نبی پاک کی خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ فرماتے ہیں "تعال یا وحشی" بس پھر کیا تھا بے چین ہو گئے اور سفر حج کی تیاری شروع کردی اور ہر وقت حمد و ثنا میں مصروف رہتے۔ روضہ رسول پر حاضری ہوئی تو زبان گنگ ہوگئی اور دل سے صدا نکلی۔

شکایت اک طرف یہ ان کی محفل میں ہوئی حالت
کہ جیسے چھین لی اللہ نے مجھ سے زباں میری

سفر حجاز کے دوران حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت ہوئے۔ ان کی پوری زندگی تقویٰ اور عبادت میں صرف ہوئی۔ عمر کا آخری حصہ اپنے صاحبزادے مولوی نجم احسن صاحب کے گھر پرتاب گڑھ پر گزرا۔ 1925 میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی تدفین رئیس حاجی محمد اصغر (میرے نانا) کے آبائی قبرستان میں ہوئی۔

مولوی نجم احسن نگرامی:

آپ مولانا محمد احسن نگرامی کے صاحبزادے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے لیکن انہیں دینی علوم پر بھی مکمل دسترس تھی۔ زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے ان کی پاکیزہ زندگی ایک نمونہ تھی جس سے ان کے ہزاروں معتقدین نے استفادہ حاصل کیا۔ بابا نجم احسن نگرامی، مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے۔ دینی مسائل پر بے شمار مضامین اور متعدد کتابیں لکھیں اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی پر بھی ان کو عبور حاصل تھا۔ وہ اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ عشق نبوی میں سرشار ان کی نعتیں اور حمدیہ کلام سننے والے پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتا تھا۔ ہر روز ان کے گھر سینکڑوں معتقد حاضری دیتے اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتے۔ ان کے نام سے کراچی میں ایک بستی احسن آباد ہے جو بابا کے ایک محبت کرنے والے نے آباد کی۔

بابا نجم احسن کی پہلی شادی

نگرام کی ایک جلیل القدر ہستی مولانا محمد ادریس کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا انتقال شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوگیا۔ بابا نجم احسن کی دوسری شادی پرتاب گڑھ کے ایک معزز خاندان میں میری والدہ کی تایا زاد بہن سے ہوئی۔ بابا کی دونوں شادیوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے تو انہوں نے اپنے بھائی امین احسن کی وفات کے بعد ان کی اولاد کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری اٹھا لی۔ نجم بابا نے اپنے مرحوم بھائی محمد امین احسن کی وفات پر ایک قطعہ لکھا۔

کوچ دنیا سے کیا تم نے اچانک حیف
صبر کیسے آئے کیوں لب پر نہ آئے دل سے آہ

کیسے دل بہلایئے کیسے تسلی دیجئے
بھولتا ہی غم نہیں آٹھوں پہر شام و سحر

یوں بسر ہوتے ہیں روز و شب تمھاری یاد میں
دیکھنے کو پیاری صورت ترستی ہے نگاہ

امین احسن مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مکین احسن، صغیر احسن، نصیر احسن اور ایک بیٹی راضیہ خاتون تقسیم کے بعد اپنی پھوپھی میمونہ خاتون کے ساتھ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ میمونہ خالہ خود ایک نستعلیق خاتون تھیں انہیں علم و ادب سے گہرا شغف تھا اور عمدہ شعر بھی کہتی تھیں۔ ان کے زیر تربیت بھتیجوں نے خوب نام پیدا کیا۔

جاری۔۔

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam