Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Guzashta Karachi

Guzashta Karachi

گزشتہ کراچی

آج جب کراچی کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شہر کو بڑی پلاننگ سے برباد کیا گیا اور اب تو یہ حال ہے کہ یہ شہر برباد کسی یتیم بچے کی طرح لاوارث ہو چکا ہے لیکن اس کے دامن میں اب بھی بہت کچھ ہے جو ہر آنے والے کو اپنے اندر سمو لیتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس شہر کے وسائل سے تو سب کو دلچسپی ہے اس کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ اس شہر کی حالت زار دیکھ کر دل کڑھتا ہے اور ذہن ماضی کے اس کراچی میں بھٹک جاتا ہے جب یہ شہر واقعی عروس البلاد تھا۔

کراچی کبھی علم و ادب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ لوگ روشن خیال اور مہذب تھے۔ رواداری اور برداشت معاشرے کا حصہ تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اکثر بھائی صاحب اپنے ساتھ ایسٹرن کافی ہاؤس اور زیلنز ریسٹورنٹ لے جاتے تھے۔ وہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے جن میں ریڈیو فنکار طلعت حسین۔ شکیل کے علاوہ ابراہیم جلیس۔ علی مختار رضوی۔ فتحیاب علی خاں۔ ایس ایم سلیم اور دوسری بہت سی نامور شخصیات کو دیکھا۔ بھائی صاحب تو ان میں گھل مل جاتے اور ہمیں دوسری ٹیبل پر بٹھا دیتے اور کولڈ کافی کے ساتھ پیسٹری ہمارے لیے بھجوا دیتے جو ہمارے لیے ایک نعمت ہوتی اور ہم دور سے ان حضرات کو دیکھا کرتے۔ جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو خود بھی اکیلے یا دوستوں کے ساتھ جانے کا شوق ہوا اور اکثر پیلس یا کیپٹل سنیما سے فلم دیکھنے کے بعد ایسٹرن کافی ہاؤس کے والٹی یا زیلنز میں کبھی کبھی بڑے فخر سے جاتے، لیکن وہ ادبی محفلیں اس وقت تک تقریباً ختم ہوگئی تھیں لیکن پھر بھی شرافت اور رواداری اور گئے وقتوں کے کچھ نقوش باقی تھے۔

کافی ہاؤس کے علاوہ بھی کئی جگہ تھیں جہاں شاعر و ادیب اور فنکار نظر آتے ان میں فریڈرک کیفے ٹیریا جس کے گراؤنڈ فلور پر ریسٹورنٹ اور دوسری منزل پر بار تھا اس کے علاوہ صدر میں کئی اور بار تھے جیسے کے پام گروز بار، میرامار بار، یو بار، رٹز بار جہاں اہل علم اور فنکار مے نوشی کے ساتھ علمی و ادبی بحث مباحثوں میں مصروف رہتے۔ ہر گروپ کا مخصوص ٹھکانہ ہوتا جہاں وہ شام ہوتے ہی پہنچ جاتے۔ ویٹر بھی ان حضرات کو پہچانتے اور اگر کبھی ان کا دیرینہ "مہمان" خالی جیب بھی ہو تو کسی کو تشنہ نہیں بھیجتے۔ آنکھ کے اشارے سے سمجھ جاتے کہ آج صاب سے کچھ نہیں ملنا۔ شاید اس زمانے تک "ادھار محبت کی قینچی نہ تھی" لوگ دیانتدار تھے اور اپنا حساب پہلی فرصت میں چکا دیا کرتے۔ اکثر بار کا چھوٹا سا دروازہ صرف چوکھٹ کے درمیان ہی میں ہوتا جو دونوں طرف کھلتا اور اس کے باہری طرف انگریزی میں "بار" لکھا ہوتا۔ بار کے اندر ایک کاؤنٹر پر بار ٹینڈر ساقی کے فرائض ادا کر رہا ہوتا اور سامنے اونچے اونچے اسٹول پر لوگ مے نوشی اور گپ شپ میں مصروف ہوتے۔ سگریٹ کا دھواں اور ہلکی ہلکی "کم سیپٹمبر" کی موسیقی سماں باندھ دیتی یہ سب کچھ ابن صفی کے کسی جاسوسی ناول کا حصہ معلوم ہوتا۔ اوپن بار کے علاوہ "وائن اسٹورز" بھی ہوتے جہاں سے ہر قسم کا مغربی مشروب بآسانی خریدا جاسکتا تھا اکثر وائن اینڈ فارمیسی ایک ساتھ ہی ہوتی۔ ایک طرف شیلف میں دوائیں دوسری طرف کے شیلف میں مے گلفام ہوتی۔ صدر میں "انگلش وائن اسٹور" بہت مشہور تھی۔ جہاں اعلیٰ قسم کی اسکاچ اور دوسری شرابیں دستیاب تھیں۔ شام کو اکثر حضرات اخبار میں لپٹی بوتل بغل میں دابے نکلتے دکھائی دیتے۔ اس آزادی کے باوجود کبھی کسی کو بدمست لڑھکتے نہیں دیکھا۔ لوگ یا تو اپنے مخصوص بارز میں مے نوشی کر لیتے یا بوتل گھروں کو لے جاتے۔

ان بارز اور وائن اسٹورز کے علاوہ شہر میں بہت سے نائٹ کلب بھی تھے۔ اکسیلشیئر، لیڈو، تاج، روما شبانہ اور ہارس شو مشہور کلب تھے جہاں یورپ اور دوسرے ملکوں سے ٹروپے بھی آتے اور مقامی رقاصائیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتیں۔ کلب میں ڈانس فلور پر خواتین اور مرد والز، چاچا چا اور ٹوئسٹ کرتے نظر آتے۔ رقص و سرود کی محفلیں رات گئے تک جاری رہتیں۔ ایک مصری رقاصہ سامیہ گمال (جمال) اپنے کیبرے کے لیے بہت مشہور ہوئیں۔ شام کے اخباروں میں ان رقاصاؤں کی تصاویر اور کلب کے پروگرام کی تفصیلات ہوتیں۔

سینٹ جوزف اور سینٹ پیٹرکس اسکول کے اطراف میں گوانیز کرسچن زیادہ آباد تھے۔ اکثر دیکھا نوجوان لڑکے لڑکیاں ٹولیوں میں بیٹھے گٹار کی دھن پر انگریزی گانے گا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بیئر کی بوتلیں بھی نظر آتیں۔ ادھیڑ عمر کی خواتین اسکرٹ پہنے اپنے صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کرتے نظر آتے یا کبھی وکٹوریہ پر شام کی سیر پر کلفٹن کی طرف جاتے دکھائی دیتے۔ کچھ لوگ اس علاقے کو بلیک پیرس بھی کہتے۔ ان گوانیز لڑکے لڑکیاں کے مختلف بینڈ بھی ہوتے اور وہ شام اور رات کو مختلف ہوٹلز اور نائٹ کلب میں لائیو بجاتے اور گاتے۔ بیٹلز، ایلوس پر یسلے، فرینک سناترا کے گانے سنے اور پسند کیے جاتے۔ اس۔ علاقے میں بھی کئی بار تھے لیکن ذرا کمتر درجے کے وہاں اکثر اسی محلے کے لوگ ہوتے تیز میوزک بجتا اور خوب غل غپاڑہ ہوتا۔ وہیں قریب فلیٹ کلب میں تمبولا بھی ہوتا اور بلیئرڈ بھی کھیلا جاتا۔

صدر ہی میں ریکس، ریو، کیپیٹل، پیراڈائز، بمبینو، لیرک سنیما تھے اور پیلس کا تو جواب نہیں اسے ہائی جینٹری سنیما سمجھا جاتا۔ ان سب میں انگریزی فلمیں چلا کرتیں۔ میں نے یہیں لا تعداد امریکن کاؤ بوائے فلمیں، دوسری جنگ عظیم پر بنی فلموں کے علاوہ ہالی وڈ کی کلاسک فلمیں دیکھیں لیکن جو مزہ پیلس سنیما میں جیمز بونڈ سیریز کی پہلی فلم "ڈاکٹر نو" دیکھ کر آیا۔ وہ آج بھی یاد ہے۔ اسی فلم کے بعد جیمز بونڈ کا کردار امر ہوگیا۔ ایان فلیمنگز کی اس کے بعد بہت سے فلمیں آئیں لیکن جو کامیابی "ڈاکٹر نو" اور "فرام رشیا ود لو" کو ملی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ گنز آف نیورون لیرک میں اور قلوپطرہ بمینو سنیما میں کھڑکی توڑ رش لے رہی تھیں۔ ٹکٹ بلیک میں ملتے اور لوگ ٹکٹ کے لیے صبح سے لائن لگا لیتے۔

اس زمانے میں سی ویو وغیرہ تو تھا نہیں۔ شوقین حضرات اور جوڑے شام کے وقت اولڈ کلفٹن چلے جاتے اور مزے کرتے نہ انہیں پولیس تنگ کرتی اور نہ ہی ان کا نکاح نامہ مانگا جاتا۔

کینٹ اسٹیشن کے قریب کراچی ریس کورس تھا جہاں بدھ اور اتوار کو ریس ہوتی اس کے علاوہ پچیس دسمبر کو قائداعظم گولڈ کپ اور ڈربی ہوتی۔ ریس کے دن رسیا دوپہر سے ہی کیفے جارج اور صدر کے دوسرے ریسٹورنٹس میں ریس کی کتاب میں کھوئے رہتے اور اپنی اپنی پسند کی ریس اور گھوڑوں پر بیٹنگ کے لیے تیاری کر رہے ہوتے۔ جیک پاٹ، ون اور پلیس پر بازیاں لگتیں۔ ریس کورس میں ایک افراتفری اور گہما گہمی ہوتی۔ ہر ایک بکیز کے کاؤنٹر پر رقم لگا رہا ہوتا۔ وہاں ریس کے وقت کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ اگر کوئی شناسا مل بھی جائے تو اس سے پہلا سوال یہی ہوتا کس پر کتنا لگایا۔ ون یا پلیس پر یا جیک پاٹ پر۔ ریس شروع ہوتی تو لوگ دیوانہ وار اپنے گھوڑے اور جاکی کو بک آپ کرتے اور ختم ہونے پر فوٹو فنش کا انتظار کرتے۔ ہر طبقے کے لوگ نظر آتے۔ امیر، غریب، فلمی ستارے سب ہی مل کر شور مچاتے۔ کچھ تو لٹا کے واپس آتے اور کوئی جیب بھر کر لوٹتا۔

کراچی کا ذکر ہو تو کراچی کے ایرانی اور ملباری کیفے کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ ان کا اپنا ایک الگ ہی کلچر تھا۔ ایرانی ہوٹل کا مسکہ بن اور چائے، ملباری ہوٹل کا بھنا قیمہ جسے بیرا بھوونا بولتا تھا اس کا ذائقہ آج بھی زبان پر ہے اور پھر ملباری ہوٹل کی چائے خوب یاد ہے۔ "ہوٹل میں سیاسی باتیں کرنا منع ہے" کا نوٹس بھی دکھائی دیتا تھا لیکن لوگ ہر موضوع پر بات کرتے نظر آتے۔ کبھی کبھار وہاں بیٹھے دادا لوگوں میں جھگڑے بھی ہو جاتے۔ کرسیاں چلتیں اور سوڈے کی بوتل ہلا کر مخالفین پر اچھال دی جاتی جو بم کی طرح پھٹتی یا کوئی دادا سات گراری والا چاقو کھول لیتا تو علاقہ میں ہفتوں سراسیمگی اور خوف طاری رہتا۔

شہر میں سیاح اور سی مینز کثرت سے آتے۔ صدر اور اس کے اطراف میں ہینڈی کرافٹس اور لیدر جیکٹ کی دکانوں پر وہ جوق در جوق نظر آتے۔ ہپی بھی کثرت سے نظر آتے۔ اس زمانے تک ہیروئن متعارف نہیں ہوئی تھے یہ ہپی "دم مارو دم" پر ہی گزارہ کرتے۔ شہر میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ اکثر لوگ بسوں اور رکشہ میں سفر کرتے لیکن اس میں بھی ایک سلیقہ ہوتا۔

کیسا بارونق شہر تھا جیب خالی بھی ہو تو شام کو صدر کی رونقیں دیکھ کر طبیعت بحال ہوجاتی تھی۔ اکثر حضرات ٹولیوں میں کیپٹل سنیما کی گلی اور کوآپریٹیو مارکیٹ کے کونے میں لگی ریلنگ کے سہارے کھڑے خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔ یا الفنسٹن اسٹریٹ جسے پیار سے "الفی" کہا جاتا ایک چکر لگا لیتے۔ بعد میں الفی کو مشرف با اسلام کر دیا گیا اور یہ زیب النسا اسٹریٹ ہوگئی اس کے باوجود اس سڑک سے اہل کراچی کا پیار کم نہیں ہوا اور اسے "زیبی" کا نام دے دیا۔ الفنسٹن اسٹریٹ پر شام ہوتے ہی رنگ برنگی روشنیاں اور نیون سائن جگمگانے لگتے اور عجیب ہی سماں ہوتا اسی کو روشنیوں کا شہر کہا گیا اور تو اور ویک اینڈ پر "کراچی بائی نائٹ" ہوتی۔ کراچی ایرو کلب سے چھوٹے سیسنا طیارے اڑتے اور لوگ کچھ ٹکٹ دے کر کراچی پر رات کو نیچی پرواز کرتے اور "کراچی بائی نائٹ" سے لطف اندوز ہوتے۔ گلشن میں واقع ایرو کلب سے شام کو گلائیڈر بھی اڑتے۔ وہیں قریب میں ایک ریٹائرڈ گوانی میجر کا سوئمنگ پول تھا جہاں چھوٹے چھوٹے ہٹ بھی موجود تھے۔ گوانیز لڑکے اور لڑکیاں وہاں آتے اور سوئمنگ کرتے۔ ان کی ٹولیاں گٹار پر گاتے بجاتے اور ہلہ گلہ کرتے۔ ہم بھی اکثر وہاں سوئمنگ کرنے جاتے اور ان سے گھل مل جاتے۔ مخصوص لوگوں کے لیے وہیں سے سوا پانچ روپے کی لندن لاگر بئیر کی بوتل بھی فراہم ہو جاتی۔ لیکن کبھی کوئی بد مزگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آج اسی جگہ عابد ٹاؤن ہے۔ ایرو کلب اب شادی لان میں تبدیل ہو کر ختم ہوگیا۔ اب وہ شام کو گلائیڈر کے نظارے صرف ایک یاد بن کر رہ گئے۔

ہائے کیسا تھا میرا کراچی۔ کتنے روشن خیال لوگ تھے کیسا تحمل اور برداشت تھا۔ کیسے کیسے با علم اور وضع دار لوگ تھے جنہوں نے مل جل کر اس شہر کو روشنیوں کا شہر بنایا اور بین الاقوامی پہچان دی۔ اب جب کبھی صدر یا اس کے اطراف میں جانا ہوتا ہے تو دل سے ہوک اٹھتی ہے۔ لگتا ہی نہیں یہ وہی شہر ہے جو میں نے اپنے لڑکپن اور جوانی میں دیکھا تھا۔ جہاں کتنی ہی شامیں گزاریں اور کتنی راتیں خاموش سڑکوں پے بے مقصد مٹر گشتی کی۔ کیسی کیسی تفریح میسر تھیں۔ سب بدل گیا لگتا ہے اس شہر کو نظر لگ گئی۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر۔ بے ہنگم اور شور مچاتا ٹریفک۔ کیسا اندھیر ہے جس شہر میں پچاس سال پہلے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم موجود تھا۔ ڈبل ڈیکر بسیں تھیں۔ ٹرام تھی جس کی ٹن ٹن آج بھی کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ سرکلر ریلوے تھی اب اسی شہر میں لوگ بسوں کی چھتوں پر سفر کر رہے ہیں۔ چنگجی چل رہی ہے۔ ویگنوں میں لوگ مرغا بنے سفر کر رہے ہیں۔ لوگوں کے چہروں پے وحشت اور مزاج تنک ہو گئے ہیں۔ انتہا پسندی ہر سو طاری ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں شہر میں مقامی اور پرانے باسیوں کی جگہ نئے چہرے نظر آتے ہیں جنہیں یہاں کی روایات اور کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پرانی خوبصورت عمارتیں گرائی جا رہی ہیں ان کی جگہ کنکریٹ کا جنگل اگ رہا ہے۔ سمندر کی لہریں جو کبھی گزری اور کلفٹن تک آ جایا کرتی تھیں دھکیل کر پیچھے کر دیا گیا اور لینڈ مافیا نے سمندر سے زمین چرا لی اور نئی بستیاں بسا لیں۔ مینگروز ختم کر دیے گئے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا اور وارمنگ بڑھی اور ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مسجدیں اور مدرسے تو بڑھ گئے اور لوگ بھی بظاہر زیادہ دیندار ہو گئے لیکن معاشرے میں جرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ برداشت ختم ہوگئی اور دیانتداری مفقود۔ جلدی امیر بننے کی دوڑ میں ہم تہذیب اور شائستگی میں کہیں بہت پیچھے چلے گئے۔

میں شاید ماضی کا قیدی ہوں اور آج بھی اپنے۔ "گزشتہ کراچی" کا نوحہ پڑھ رہا ہوں۔ کاش میں اپنے بچوں کو اپنا وہی شہر دکھا سکتا جو میں نے دیکھا تھا۔

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed