Americi Driving Licence Aur Is Ka Husool
امریکی ڈرائیونگ لائسنس اور اس کا حصول
امریکہ میں ڈرائیونگ لائسنس صرف ڈرائیونگ کا اجازت نامہ ہی نہیں بلکہ اس کے حاصل کر لینے کے بعد آپ امریکن سسٹم میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ امریکی زندگی کے ہے شعبے میں کام آتا ہے چاہے بینک میں اکاؤنٹ کھولنا ہو۔ کہیں سفر کرنا ہو۔ اپنی شناخت کرانی ہو۔ جائیداد خریدنا یا فروخت کرنا ہو۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں ڈرائیونگ کرنی ہو۔ کار خریدنا یا لیز کرنا ہو۔ روزگار کا حصول۔ انشورنس۔ اور تو اور کچھ ممالک کا ویزا بھی اس کی بنیاد پر مل جاتا ہے۔ امریکہ میں کہیں کوئی کام ہو تو پہلے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھتے ہیں۔ اس کے حصول کے بعد زندگی آسان ہوجاتی ہے اور آپ کی ایک شناخت یا Six Point ID بن جاتی ہے جو یہاں روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں ضروری سمجھی جاتی ہے۔
امریکہ ہمارے لیے قطعی اجنبی نہیں تھا۔ پچھلے پچیس برسوں سے آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ پہلے اتنی پابندی کے ساتھ نہیں لیکن جب سے بچے یہاں منتقل ہوئے ہیں ہر سال ہی آنا ہوتا ہے۔ سفر طویل اور تھکا دینے والا ضرور ہے لیکن بچوں اور ان کے بچوں کی کشش یہاں کھینچ ہی لاتی ہے اور پھر۔ جب پاکستان کی محبت غالب اتی ہے تو واپسی کے دن گننا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان پہنچے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ بچوں کا اصرار شروع ہوجاتا ہے کہ کب واپس آرہے ہیں۔ ان کی تشویش بھی بجا ہے کہ کہیں ہم بیمار نہ ہوجائیں۔ کوئی پریشانی لاحق نہ ہوئی ہو یا کراچی کے مخصوص حالات میں کسی ناگہانی کا شکار نہ ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔
یوں تو ہمارے پاس امریکن وزٹ ویزا سنہ پچانوے سے ہے جو ہر پانچ سال بعد آسانی سے Renew ہوجاتا تھا اور ہم بآسانی آتے جاتے رہتے تھے لہذا کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کی جائے۔
پچھلے برس جب ہم چند ماہ کے لیے امریکہ آئے تو ہمارے صاحبزادے نے میرے اور اپنی ماں کے گرین کارڈ کے لیے کاغذات جمع کرا دیے اور حیرت انگیز طور پر ہمارا گرین کارڈ بہت مختصر مدت میں منظور ہو کر آ بھی گیا۔
گرین کارڈ کے حصول کے بعد بیٹے نے اصرار کیا کہ اب مجھے ڈرائیونگ لائسنس بھی لے لینا چاہیے تاکہ ہم اپنے طور پر انڈیپینڈنٹ ہوجائیں اور دیگر امریکی سہولتوں کو بھی حاصل کرنے کے اہل ہو سکیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کا ملنا یہاں ایک مشکل مرحلہ ہے اور جب ایک بار مل جائے تو پھر زندگی آسان ہوجاتی ہے۔
میں سمجھتا تھا امریکی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا ہمارے لیے کیا مشکل ہے میں کم و بیش پچھلے تیس برسوں سے ڈرائیونگ کر رہا ہوں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ڈرائیونگ کی۔ سعودی عرب میں دس سال رہا جہاں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ وہاں بھی امریکہ ہی کی طرح لیفٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہوتی ہے۔ ٹریفک کے قوانین اور نشانات کی خلاف ورزی سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ اور ہم نے ہمیشہ ہی ہر ملک کے ٹریفک اصولوں کی پاسداری کی ہے۔
تو صاحبو۔ بزعم خود ہمیں اپنی ڈرائیونگ پر بڑا ناز تھا۔ اس کی وجہ بھی تھی کہ کبھی کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کوئی چالان نہیں ہوا۔ شاید اسی لیے کچھ زیادہ ہی پر اعتماد بھی تھے کہ ہم نے تو کراچی میں بھی ڈرائیونگ کی جہاں کی ڈرائیونگ کے مقابلے میں پل صراط کو عبور کرنا شاید زیادہ آسان ہو بلکہ پل صراط تو یقیناً سیدھا ہی ہوگا لیکن کراچی میں ہر لمحہ زیگ زیگ ڈرائیونگ اور سامنے سے کسی بھی غیر متوقع گاڑی کا سامنا ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
کراچی میں گاڑی چلانے کے لیے دو آنکھیں اور دو ہاتھ کافی نہیں۔ ہر شخص اپنی مرضی اور اپنی سہولت سے کسی قانون اور اصول کی پرواہ کئیے بغیر "آزادانہ" ڈرائیونگ کرتا ہے۔ وطن عزیز میں ڈرائیونگ کے دوران اپنے علاوہ دوسروں کا بھی مارجن رکھنا پڑتا ہے اس کے باوجود شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جس کی گاڑی میں اسکریچ نہ پڑے ہوں اور مزے کی بات یہ کہ مارنے والے کو کسی قسم کی کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ معذرت کرتا ہے اگر آپ الجھیں تو الٹا آپ کو قصوروار بھی ٹھہرائے گا اور بتائے گا کہ "جانتے نہیں میں کون ہوں" یا اندھے ہو یا یہ کہ تمھارے باپ کی روڈ ہے اور یہ آج تک طے نہیں ہو پایا کہ کس کے باپ کی روڈ ہے یا اندھا کون ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور عذاب سے کراچی والے گزرتے رہتے ہیں اور وہ ہے ٹریفک جام یا بارش میں جب گاڑیاں پھنس جاتی ہیں تو تیار اور چوکنا رہیں کسی وقت بھی کوئی لونڈا آتشیں کھلونے کے زور پر شیشہ کھلوا کر آپ کا فون اور دیگر قیمتی چیزیں لے کر رفو چکر ہوجاتا ہے اور سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اب ہم جیسے جیالے اور خطروں سے کھیلنے والے کب کسی ڈرائیونگ ٹیسٹ کو خاطر میں لاتے اور ان خصوصیات کے پیش نظر ہم نے ڈرائیونگ ٹیسٹ کے لیے حامی بھر لی۔
نیوجرسی جہاں میرا قیام تھا وہیں میرے لائسنس کی درخواست دی گئی جو مختصر سے طبی معائنہ کے بعد منظور ہوگئی اور ڈرائیونگ نالج ٹیسٹ کی تاریخ دے دی گئی۔ ٹیسٹ ڈرائینگ لائسنسنگ آفس ہی میں کمپیوٹر پر لیا جاتا ہے۔ کل اسی سوالات اور تصاویر سامنے آتی ہیں جن کے مختلف جوابات کے آپشن ہوتے ہیں اور کسی ایک جواب کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ نالج ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے اسی فیصد نمبر آنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم اپنے تجربے اور کچھ یوٹیوب کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جواب دیتے رہے اور ٹیسٹ کے اختتام پر کمپیوٹر نے ہمیں فیل کر دیا۔
ہمیں بہت غصہ آیا اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ باہر آئے بیگم اور صاحبزادے منتظر تھے وہ بھی پہلے تو ہمارے فیل ہونے پر حیران ہوئے اور پھر حوصلہ دینے لگے کہ کوئی بات نہیں اور اگلے ہفتے کی تاریخ لے لی۔ اس بار ہم مزید تیاری کرکے گئے۔ یوٹیوب پر بارہا ٹیسٹ دیے بلکہ نیو جرسی ٹریفک کے قوانین کا کتابچہ بھی پڑھ ڈالا۔ لیکن کچھ کام نہ آیا اور ہم دوسری بار بھی فیل ہو گئے۔ ایک بار پھر وقت لیا گیا اور ہم تیسری بار کمپیوٹر نالج ٹیسٹ کے لیے گئے اور تیسری بار پھر ناکام و نامراد واپس لوٹے۔
ہم سمجھتے ہیں اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ان کے سوالات ہی بیہودہ ہوتے ہیں مثلاً زیادہ حادثات بئیر پینے سے ہوتے ہیں یا وہسکی پینے سے۔ اگر کسی پارٹی میں گئے اور وہاں زیادہ چڑھا لی تو واپس کیسے جائیں گے یا کتنے اونس سے زیادہ پی کر ڈرائیونگ نہ کی جائے۔ اب امریکیوں کو کون سمجھائے اپنے ملک میں یہ سب کوئی نہیں پوچھتا۔ بھائی لوگ پوری بوتل چڑھا کر بھی گاڑی چلاتے ہیں اگر نشے میں زیگ زیگ ڈرائیونگ کر بھی لیں تو کیا ہوا جنہوں نے نہیں پی وہ بھی ایسے ہی چلاتے ہیں کوئی نہیں پوچھتا اور اگر کبھی کوئی "فرض شناس" ٹریفک والا روک بھی لے تو سو پچاس دیکھ کر "کنون" کے لمبے ہاتھ چھوٹے ہو جاتے ہیں۔
ہم وطنوں نے تو یہ بھی ٹی وی اسکرین پر دیکھا کہ ایک بن پیے طاقت کے نشے میں بدمست سردار نے ٹریفک افسر کے اوپر ہی گاڑی چڑھا دی اور عدالت سے بری بھی ہوگیا۔ خود کو تسلی دی کہ یہ گورے انتہائی کم عقل اور بدھو ہیں جو اس قسم کی احمقانہ اور فضول باتوں پر فیل کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے خلاف ضرور کوئی سازش ہو رہی ہے۔
ہم ہمت ہارنے والے نہیں تھے اور صاحبزادے بھی ہمیں پاس کرانے پر تلے بیٹھے تھے۔ خیر چوتھی بار پھر وقت لیا گیا اور ہم پھر ایک بار کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے اپنی ڈرائیونگ نالج کا امتحان دے رہے۔ سوالات کے ختم ہونے پر کمپیوٹر اسکرین جیسے جگ مگا اٹھا اور لکھا دیکھا "مبارک ہو آپ پاس ہو گئے"۔ ہم فیل ہونے کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کئی بار آنکھوں کو مسل مسل کر بھی دیکھا کہ کہیں غلط تو نہیں پڑھا۔ لیکن ہم سچ مچ پاس ہو گئے تھے اور اس بار ہم کسی قدر سینہ چوڑا کرکے ہال سے باہر آئے۔ بیگم اور بیٹے کو دیکھ کر دور سے انگوٹھا دکھایا جیسے کوئی جنگ جیت کر آرہے ہیں لیکن ڈرائیونگ لائسنس دینے والوں نے اب بھی ہمیں معتبر نہ جانا
اور ہمیں عارضی ڈرائیونگ لائسنس دیا وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ کسی بالغ اور مستند لائسنس یافتہ ڈرائیور کے ساتھ دو مہینے Learner ڈرائیور کی حیثیت سے پریکٹس کی جائے۔ ہمیں اپنے تئیں اپنی ڈرائیونگ پر بڑا ناز تھا۔ اور ہمیشہ بچوں کی ڈرائیونگ پر بہت انگلیاں اٹھاتے اور سیفٹی پر لیکچر بھی دیتے تھے۔ اور اب انکل سام کے حکم کے مطابق انہی بچوں کی شاگردی کرنی تھی۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کبھی بڑا بول نہ بولو۔
مرتا کیا نہ کرتا اب ہمیں صاحبزادے ڈرائیونگ پریکٹس کراتے۔ سیفٹی اور سڑک پر لگے نشانات اور اشارے سمجھاتے اور ہم کسی ہونہار شاگرد کی طرح سنتے رہتے یہ اور بات ہے کہ دل ہی دل میں ہنستا کہ اب یہ کل کا بچہ ہمیں سکھاتا ہے۔ لیکن کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔
تربیتی مدت ختم ہوتی تو بیٹے نے ہمارے ڈرائیونگ ٹیسٹ کے لیے وقت لے لیا اور ہم روڈ ٹیسٹ کے لئے گئے جو ایک بڑے سے گراؤنڈ میں جہاں سڑکیں۔ فٹ پاتھ۔ مختلف اشارے اور روڈ سائن اور وہ سب کچھ تھا جو دوران ڈرائیونگ شہر اور گلیوں میں ہوتے ہیں۔ ٹیسٹ سے پہلے ہماری کار جس پر ٹیسٹ دینا تھا کی مکمل جانچ کی گئی اس کی لائٹ۔ بریک۔ انڈیکیٹر۔ وائپر۔ انشورنس اور رجسٹریشن کاغذات چیک کرنے کے بعد ایک کھڑوس قسم کا گورا ٹیسٹر میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
منھ ٹیڑھا کرکے کچھ سوالات پوچھے۔ مجھے اس کی نیت کچھ شک ہوا۔ پھر موصوف نے اسٹارٹ اینڈ لیفٹ ٹرن کا حکم دیا۔ ہم نے تعمیل تو کی لیکن اسٹاپ سائن سے محض چند فٹ آگے چلے گئے لہذا بغیر کسی تاخیر کے انہوں نے ہمیں فیل قرار دیا اور ہم مقابلے سے باہر کر دیے گئے۔ "اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ پر کتر لیے گئے"۔ اب ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ گورے ہمیں امریکی سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔
صاحبزادے دور سے ہماری "کارکردگی" دیکھ رہے تھے ہمیشہ کی طرح ہمیں شرمندہ پاکر تسلی دی کہ کوئی بات نہیں پہلی بار اکثر ایسا ہوجاتا ہے اور ہم ان کی طفل تسلی پر کٹے جا رہے تھے۔ خیر دو ہفتے بعد کی تاریخ لی گئی اور ہم ایک بار پھر بیٹے کی زیر تربیت "پریکٹس" کرنے لگے۔ دوسری بار پھر اسی جگہ روڈ ٹیسٹ کے لیے پہنچے اس بار ایک خوبرو خاتون ہماری ٹیسٹر تھیں۔ وہی سارے سوالات انہوں نے بھی پوچھے گاڑی چیک کی اور کاغذات کی پڑتال کے بعد ان کے اشارے پر گاڑی آگے بڑھائی۔ کچھ دیر تک تو سب ٹھیک رہا پھر خاتون نے Parallel Parking کے لیے کہا جو دو پیلے رنگ کی کون کے درمیان ریورس گیئر میں کرنا تھی۔ ہم کراچی میں اس سے بھی تنگ جگہ پر ریورس پارکنگ کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے لہذا ہم نے نہایت اعتماد اور قدرے لا پرواہی کے ساتھ گاڑی ریورس کی۔
کار میں بیک ویو کیمرہ لگا ہونے کے باوجود یہاں اسے دیکھنے کی اجازت نہیں اور ہرحال میں ریورس کرتے وقت گردن موڑ کے پیچھے دیکھنا ضروری ہے۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ ریورس کر رہی رہے تھے کہ کار کا سنسر ٹوں ٹوں کرنے لگا اس سے پہلے کہ ہم بریک لگاتے سنسر نے ایک لمبی سی ٹیں کی اور گاڑی خود کار طریقے سے رک گئی شاید بد حواسی میں گاڑی کا پچھلا وہیل فٹ پاتھ سے ٹکرا گیا تھا۔ اس حسینہ نے بغیر کسی مروت کے یہ مژدہ سنا دیا Sorry، you are fail اور ایک پیلا کاغذ تھما دیا کہ دو ہفتے مزید پریکٹس کروں۔
ہم سہ بارہ صاحبزادے کے زیر کمان ریورسنگ۔ پارکنگ اور K Cut کی ٹریننگ کرنے لگے۔ وہ ہمیں کھلے میدان میں لے جاتے فرضی نشانات لگا کر ریورس پارکنگ اور کے کٹ کا طریقہ سمجھاتے اور ہم کسی اچھے بچے کی طرح ان کی ہدایات پر نہایت فرمانبرداری سے عمل کرتے۔ دو ہفتے مزید پریکٹس کرکے ہم دوبارہ اسی میدان کارگزار میں ٹسٹ کے لیے لے جائے گئے۔ بیگم اور صاحبزادے پہلے سے تسلی دینے لگے کہ اگر پھر فیل ہوجائیں تو کوئی بات نہیں پھر آ جائیں گے اور ہم دل ہی دل میں مزید شرمندہ ہوئے جا رہے تھے۔
تیسری بار بھی ہم پھر فیل ہونے کے لیے ذہنی طور پوری طرح تیار تھے اور سوچ لیا تھا کہ اگلی بار کسی دوسری اسٹیٹ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ دیں گے اور اپنے طور پر یہ بھی طے کر لیا تھا کہ نیو جرسی والوں کو ہم سے کوئی ذاتی عناد ہے اور یہ ہمیں ڈرائیونگ کرنے دینا چاہتے ہی نہیں۔ خیر اس بار بھی ایک خاتون ہماری ٹیسٹر تھیں۔ دراز قد اور انتہائی خوبرو۔ انہوں نے وہ ساری ابتدائی کارروائی کیں۔ سوالات کئیے اور برابر والی سیٹ پر براجمان ہوگئیں اور چلنے کا اشارہ کیا۔
ہم نہایت اطمینان سے ان کی ہدایت کے مطابق چلتے رہے۔ دائیں بائیں مڑتے رہے پھر وہ ہمیں انہی دو کون کے قریب لے آئیں اور Parallel Parking کے لیے کہا جو ہم نے اس بار اپنی دانست کے مطابق بغیر کسی غلطی کے بخوبی کرلی تو حکم ہوا Will you please do a K cut for me. ہم نے تعمیل کی اور اس مرحلے کو بھی سر انجام دے لیا اس کے بعد ریورس ڈرائیونگ کرائی اور کہا please pull over جس کا یہاں مطلب گاڑی سائڈ پر لگانا ہے۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ محترمہ بھی ہمارے خلاف سازش کا حصہ ہیں اور ہمیں فیل کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔
حکم کی تعمیل کی اور گاڑی سائڈ پر لگا کر ہم نے پارکنگ گیئر میں لگا دیا اور ان کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ خاتون نے ایک فارم پر کچھ نشانات لگائے کچھ لکھا اور مسکراتے ہوئے کہا Congratulation you Pass ہم اس خبر کے لیے قطعی تیار نہ تھے قریب تھا کہ غشی کا دورہ پڑ جاتا یا فرط جذبات میں ان سے بغلگیر ہو جاتے کہ انہوں نے ایک کاغذ تھما دیا اور یہ پیلے رنگ کا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا سامنے آفس سے اپنا لائسنس لے لوں۔
وہیں قریب بیگم اور صاحبزادے ہمارے فیل ہونے کی خبر کے منتظر تھے بلکہ ہمارے ڈرائیونگ ٹیسٹ کی وڈیو بھی بنا رہے تھے کہ اس بار بھی فیل ہوں تو ہماری غلطیوں کا ثبوت بھی دے سکیں۔ لیکن ہم پاس ہو گئے اور بڑے فخر سے انگوٹھا دکھا کر دور سے اپنی کامیابی کا اعلان کیا یہ اور بات ہے کہ یقین ہمیں خود نہیں آ رہا تھا اور انہیں بھی بمشکل باور کرایا کہ ہم واقعی پاس ہو گئے۔ اگلا مرحلے میں ہم آفس گئے جہاں کچھ کاغذی کارروائی کے بعد ہماری تصویر کھینچی گئی اور ٹمپریری لائسنس عطا ہوا اور ساتھ ہی بتایا کہ اصل لائسنس کارڈ دو ہفتوں میں گھر کے پتے پر بھیج دیا جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا اور ہمارا لائسنس مقررہ وقت سے پہلے ہی گھر آ گیا۔ اور ہم بھی امریکہ میں کسی حد تک معتبر ٹھہرے۔
تین دفعہ نالج ٹیسٹ اور دو بار روڈ ٹیسٹ میں فیل ہونے کے دوران ہماری نظریں بار بار کسی غیبی مدد یا کسی ہمدرد کو تلاش کرتی رہی کہ کوئی آئے اور کہے صاحب اندر میری واقفیت ہے آپ بغیر ٹیسٹ دیے پاس ہوجائیں گے بس کچھ نذرانہ دینا ہوگا یا کسی دوست کی سفارش ہی کام آجاتی لیکن یہ گورے نامعلوم کون سی مخلوق ہیں کہ کسی شارٹ کٹ کو مانتے ہی نہیں اور نہ ہی اپنا کوئی کارندہ باہر مخلوق خدا کی "خدمت" کے لیے چھوڑتے ہیں کہ دونوں کا بھلا ہوجاتا۔ ہمارے وطن میں تو سب کام گھر بیٹھے ہو جاتے ہیں بس "ہذا من فضل ربی" کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ امریکہ ہے یہ کیا جانیں ہمارے شارٹ کٹس اور مڈل مین کی افادیت کو۔
اب جبکہ ہم امریکی حکام ٹریفک کی نظر میں مستند ڈرائیور قرار دیے جا چکے ہیں خود کو ان کے قوانین کے مطابق ڈھال بھی چکے ہیں اور اس بات کا بخوبی ادراک بھی ہو چکا ہے کہ سیف ڈرائیونگ اور سڑک کے قوانین اور دوسروں کی حقوق کیا ہیں۔ اصول تو کم و بیش یہی ہمارے بھی ٹریفک کے قوانین کی کتابوں میں درج ہیں لیکن کب اور کون ان کی پرواہ کرتا ہے بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور پھر قائداعظم کی تصویر والا کا غذ کا ٹکڑا ساری مشکلات اور ہر قانون شکنی کا مداوا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر کسی قوم کا کردار دیکھنا ہو تو اس کا ٹریفک دیکھ لو"
کیا ہمارا ٹریفک ہماری صحیح ترجمانی نہیں کرتا؟