Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anjum Kazmi
  4. Sheetal Sada Suhagan Raho

Sheetal Sada Suhagan Raho

شیتل سدا سہاگن رہو

"سدا سہاگن رہو" بچپن میں یہ فقرہ ہر بزرگ اور بڑی عمر کی خواتین کو نوعمر لڑکیوں کو کہتے سنا کرتے تھے، یہ دُعا سُن کر بزرگوں کی محبت اور اپنائیت کا احساس ہوتا تھا، میں مرد ہوں مگر یہ الفاظ جب بھی میرے کان میں پڑتے تو دل میں ان بزرگ خواتین کے لئے محبت کا دریا پھوٹتے ہوئے محسوس ہوتا تھا، یہ دُعا سُن کر بچی یا لڑکی شرما کر رہ جاتی اور اپنے خوشیوں سے بھری مستقبل کے سپنے دیکھنے لگتی، ماضی میں پی ٹی وی کے ڈرامے میں جو خاص طور پر کراچی میں تیار ہوتے تھے یہ جملہ اکثر بولا جاتا تھا اور اس پر لڑکی کا شرما جانا بہت اچھا لگتا تھا۔

بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں، میں بھی بیٹیوں والا ہوں، دو بیٹیاں تعلیم کے سلسلہ میں شہر سے دور ہیں، ایک بیٹی ساتھ ہے، دو بیٹیوں کی عدم موجودگی میں گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے، سوچتا ہے جب ان کی شادیاں ہو جائیں گی تو گھر تو سُونا ہوجائے گا، ایک بیٹی ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم میاں بیوی تمام محبت اب اس پر نچھاور کررہے ہیں، وہ خود کو وی آئی پی سمجھنے لگی ہے، رات دو بجے بھی وہ کوئی فرمائش کردے تو فوری پوری کر دیتا ہوں کیونکہ اس کا اداس چہرہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

بیٹیاں تو باپ کا فخر اور گھر کی عزت ہوتی ہیں، گھر میں انکی موجودگی اللہ کی رحمت کا باعث بنتا ہے، پھر بلوچستان کی شیتل کو گولیوں سے یوں بھونتے ہوئے دیکھ کر دل کی دھڑکن ہی رُک گئی، ایک نہیں، دو نہیں پوری 9 گولیاں ماریں، وہ گر گئی مگر اس پر پاس جاکر گولیاں ماریں، میں نہیں جانتا کہ مارنے والے کا اس لڑکی سے کیا تعلق تھا، باپ تھا، بھائی تھا، چچا تھا، ماموں تھا یا کوئی کزن؟ اتنا سنگدل شخص تھا شاید اس کی کوئی بہن، بیٹی نہیں تھی مگر اسے کسی عورت نے ہی جنم دیا ہے، اتنی سفاکی، استغفراللہ، اپنی انا کی جھوٹی تسکین کیلئے جنہم خرید لی۔

پاکستان میں بلوچ قوم کو نڈر، بہادر اور دلیر قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، بلوچوں کے مختلف قبائل ہیں جہاں آج بھی جہالت کے دور کے رسم و رواج قائم ہیں، ان قبائل میں مرد کی غیرت کو بنیاد بنا کر عورتوں کو محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے اور اس طرح کے ظلم و ستم کرکے اپنی مردانگی اور بہادری کو ڈھونڈرا پیٹا جاتا ہے، مجبور، بے بس اور لاچار عورتوں پر ظلم بلکہ درندگی کا مظاہرہ کرکے بہادر بننا کہاں کی مردانگی ہے۔

پاکستان میں میں نے کبھی کوئی بلوچ غیر مسلم نہیں دیکھا نہ سنا ہے، بلوچ مسلمان ہی دیکھے ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں جو رسول اللہ کی تعلیمات سے ہی ناواقف ہیں، ان لوگوں نے صرف کلمہ پڑھا ہے، دین حق کو سمجھا ہی نہیں نہ ہی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا ہے، اسلام میں عورت کو اپنی پسند کی شادی کرنے کا پورا حق دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی بیٹی تھیں، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ، آپ نے جب ان کی شادی حضرت علی علیہ سلام سے کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے پہلے بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ سے ان کی رضامندی پوچھی جب ان کی رضا مندی ہوئی تب رسول اللہ نے رشتے کی ہاں کی تھی، یہ کیسے مسلمان ہیں جو آپ کی تعلیمات سے ہی واقف نہیں۔

افسوس اس بات کا بھی ہے کہ مقتولہ کے شوہر پر بھی گولیوں کی بارش کردی گئی، اتنے "غیرت مندوں" میں نہتا جوڑا کیا کرسکتا تھا، انہوں نے کوئی غیر شرعی کام تو نہیں کیا تھا، پھر دونوں قبائل ان کو قتل کرنے پر متفق کیوں ہوگئے؟ کیا اسلام نے مردوزن کو پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں کی، یہ لوگ اپنی روایات اور اپنی انا کے قیدی ہیں، ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، مقتول جوڑے کو اپنی زندگی جینے کا پورا حق تھا اور وہ حق اس جوڑے نے استعمال کیا، اس میں کیا غیر شرعی یا غیر قانونی بات تھی، بس دنیا اور اپنے قبائل کو یہ دکھانا تھا کہ ہم بہادر قوم ہیں اور اگر کسی نے آئندہ بھی ایسی "غلطی" کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی ان جیسا ہی ہوگا، بس یہی تمھاری بہادری اور مردانگی ہے اس کے علاوہ تم کیا کرسکتے ہو۔

بتایا گیا کہ یہ واقعہ عید سے تین روز قبل کا ہے، وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی قتل کی ویڈیو وائرل ہونے پر ہوش میں آگئے اور فوری طور پر قانون نافذ کرنیوالے افسران کو ملزمان گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی، پھر بتایا گیا کہ مرکزی ملزم پکڑ لیا گیا ہے، اس کے بعد وزیراعلی بلوچستان مصلحتوں کا شکار ہوجائیں گے کہ قبائلی روایات ہیں، ہم مجبور ہیں، واقعہ کی مذمت بڑھی تو پیپلزپارٹی کے نوجوان اور "غیرتمند" چیئرمین بلاول زرداری کے خون نے بھی جوش مارا اور ملزمان کو پکڑنے کی بڑھک مار دی کیونکہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔

کیا ہوگا، کل کو پھر کوئی شیتل بنے گی تو اسے بھی اسی طرح پہاڑوں کے بیچ میں اپنی انا کی تسکین کیلئے مار دیا جائے گا، سلام ہے مقتولہ شیتل کو جس نے مرنے سے پہلے کہا گولیاں مارنے کی اجازت ہے اور کہا کہ کوئی مرد اسے ہاتھ نہ لگائے، پھر وہ اپنے قدموں پر چل کر موت کے مقام تک گئی، نہ لڑکھڑائی، نہ ڈگمگائی، تین، چار گولیاں پشت پر کھا کر بھی کھڑی رہی اور پھر گرگئی کیونکہ اس کا ضمیر زندہ تھا کہ اس نے کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی کام نہیں کیا، اس نے مطمئن ہوکر موت کو گلے لگایا اور مرنے کے بعد بھی چہرہ پرسکون تھا، کوئی کرب کے آثار نہیں تھے۔

مرنے سے قبل شیتل نے سرخ جوڑا پہنا جو سہاگن کی نشانی ہوتا ہے، اسی سرخ جوڑے میں اس نے اپنا سرخ لہو بھی شامل کرلیا کیونکہ روز محشر وہ اسی سہاگن جوڑے میں اٹھے گی اور اللہ سے انصاف مانگے گی کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا، اللہ کے دین کے مطابق شادی کی تھی، شیتل روز محشر بھی سہاگن ہی ہوگی اور مارنے والے جہنم کے حقدار ٹھہریں گے، میری دعا ہے شیتل سدا سہاگن رہو۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali