Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anjum Kazmi
  4. Saba Qamar Ke Bold Scene

Saba Qamar Ke Bold Scene

صباء قمر کے بولڈ سین

صباء قمر پاکستان کی باصلاحیت اور محنتی اداکارہ ہیں، ان سے میرا پہلا تعارف 2005ء میں اداکارہ اور ڈائریکٹر زیب چودھری کی ڈرامہ سیریل "تعبیر" کی ریکارڈنگ کے موقع پر میاں اظہر کے سنت نگر کے گھر پر شوٹنگ کے دوران ہوا تھا، اس وقت صباء قمر نئی نئی شوبز میں وارد ہوئی تھیں اور ڈرامے میں اکڑ مزاج بھائی کی بہن کا کردار ادا کر رہی تھیں، اس ڈرامے میں ماں کا کردار اداکارہ روحی نبھا رہی تھیں، زیب چودھری خود اس کی مرکزی ہیروئن تھیں۔

اس وقت صباء قمر کا کام دیکھ کر اپنے کزن اور دوست محسن بخاری جو کہ اس ڈرامے کے اسسٹنٹ پروڈیوسر تھے کو پیشگوئی کردی تھی کہ اس لڑکی میں کرنٹ ہے یہ نام بنائے گی، اس ڈرامے میں صباء قمر کے ہیرو حیدر سلطان (سلطان راہی کا بیٹا) تھے، اس وقت مجھے ٹی وی پروڈکشن سیکھنے کا شوق پیدا ہوا تھا کیونکہ نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہونیوالی تھی، اس لئے سوچا ٹی وی پروڈکشن سیکھی جائے۔

محسن سے خواہش کا اظہار کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں زیب چودھری کا ڈرامہ اسسٹ کررہا ہوں، دن میں جب بھی وقت ملے آجائیں اور کام کریں فری میں، غضنفر صاحب پروڈیوسر تھے، ایک ہفتہ ان کی ٹیم میں رہا تو ایک دن غضنفر صاحب نے آواز دی اور سکرپٹ ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا ایک ہفتہ ہوگیا ہے کام کرتے ہوئے، یہ سین کراؤ، میرے پاؤں کانپنے لگے، یہ کیا ہوگیا۔

میاں اظہر کے گھر کی چھت پر سین تھا جو اس طرح تھا کہ شام کا وقت ہے، صباء قمر چھت پر سوکھنے کیلئے ڈالے گئے کپڑے اتارنے جاتی ہے، اس کا ہیرو حیدر سلطان جو کہ اس کا ہمسایہ تھا، وہ انتظار میں تھا کہ اسکی ہیروئن اس وقت کپڑے اتارنے آئے گی، میں نے چھت پر کپڑے سکھانے والے تار پر چند کپڑے ڈالوائے، کیمرے اور لائٹس سیٹ کرائیں، پھر دونوں کو بلا لیا۔

کپڑوں کے دونوں اطراف ان کو کھڑا کرکے سین سمجھانے لگا کہ کیمرہ صباء کو سیڑھی سے captureکریگا، صباء گنگاتی ہوئی اوپر آئے گی اور تار پر پڑے کپڑے اتارے گی، حیدر سلطان کپڑوں کے پیچھے کھڑے ہونگے جس کا صباء کو علم نہیں، صباء ابھی ایک دو کپڑے ہی اتارے گی۔۔ تو حیدر سلطان نے فوراً لقمہ دیا، "بس ٹھیک ہے باقی میں خود اتار لوں گا"، یہ فقرہ سن کر میرے تو ہوش اڑ گئے کہ کہیں صباء غصہ ہی نہ کرجائے کیونکہ ایسا فقرہ سکرپٹ میں نہیں تھا، خیر میں نے اپنی ڈائریکشن جاری رکھی اور کہا پہلے سین سن لیں پھر کپڑے بھی اتار لیجیئے گا، تو صباء ایک دو کپڑے اتارے گی تو حیدر اس کا ہاتھ پکڑ لے گا جس پر صباء مشرقی لڑکی کی طرح شرما کر کہے گی چھوڑو میرا ہاتھ۔۔ جس پر حیدر کہتا ہے کہ یہ ہاتھ میں نے چھوڑنے کیلئے نہیں پکڑا۔

چند جملے مزید تھے اور سین مکمل ہوگیا، یہ سین پہلی ٹیک میں ہی اوکے ہوگیا، کیمرہ مین تحسین تھا جو کہ بہت ذہین کیمرہ مین تھا اس نے بہت تعاون کیا مگر حیدر کے فقرے سے میرا دماغ کافی دیر کا تک سائیں سائیں کرتا رہا، سین کروا کر نیچے آیا اور محسن سے سگریٹ لیا اور سارا واقعہ سنایا جس پر محسن نے قہقہہ لگایا کہ یہ تو بہت معمولی بات ہے، پریشان نہ ہو، ریکارڈنگ میں بہت کچھ ہوتا ہے اور دوسری بات جو لڑکی شوبز میں آتی ہے اس کو یہ سب پہلے سے ہی علم ہوتا ہے اس لئے chill کرو۔

میں نے محسن سے کہا کہ صباء میں کرنٹ ہے، فٹ ورک بہت اچھا ہے، ایکسپریشن بھی کمال ہے حالانکہ کہ نئی آئی ہے اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ صباء قمر نے اپنی محنت اور جنون سے پاکستان کی شوبز کی صنعت میں خوب نام بنایا ہے، میں نے سیریل پوری بھی نہ کی اور پروڈکشن چھوڑ دی کیونکہ بہت صبر آزما کام تھا۔

صباء قمر کا تعارف اس لئے لکھا کہ آج کل صباء قمر خبروں میں بہت ان ہے، اس کی وجہ اس کے بولڈ فوٹو شوٹس اور اداکاری ہے، ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامے "کیس نمبر نائن" میں ریپ سین بھی کمال اداکاری کرتے ہوئے فلمبند کرایا جس سے دیکھنے والے کو احساس ہوتا ہے کہ اگر کسی لڑکی سے زبردستی زیادتی کی جائے تو اس کی حالت کیا ہوسکتی ہے۔

ابھی یہ معاملہ تھما نہیں تھا کہ ایک اور سین پر لوگوں نے اس پر تنقید شروع کردی، وہ سین بھی ایک ڈرامہ سیریل کا ہے جس کی 12 اقساط آن ایئر ہوچکی ہیں، ڈراما سیریل پامال، کی حالیہ قسط میں شوہر اور بیوی کے درمیان دکھائے گئے بولڈ منظر پر ناظرین کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے پامال، کی کہانی ایک مصنفہ ملیکہ کے گرد گھومتی ہے جس نے شادی سے پہلے اور بعد میں ایک مشکل زندگی گزاری، والد کے بغیر پرورش پانے والی ملیکہ بچپن سے شادی شدہ زندگی کو ایک پریوں کی کہانی سمجھتی ہے مگر رضا سے شادی کے بعد اس کے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں کیونکہ رضا اس کی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔

ڈرامے میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ رضا اپنی بیوی پر شک کرتا ہے اور اس پر پابندیاں لگاتا ہے، حالیہ قسط میں جھگڑے کے بعد رضا اور ملیکہ کی ہسپتال میں دوبارہ ملاقات دکھائی گئی ہے، ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ ملیکہ، رضا کی حالت کے بارے میں جان کر ہسپتال پہنچتی ہے اور شوہر کو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی اور اسے گلے لگا لیتی ہے، صباء نے یہ سین اسی طرح فلم بند کرایا جس طرح ایک بیوی اپنے شوہر کی خراب حالت دیکھ کر کرسکتی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

صارفین نے عجیب عجیب تبصرے کئے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہر وہ بندہ اس پر ناگواری کا اظہار کررہا ہے جس کے ہاتھ میں اینڈرائڈ اور آئی فون ہے، وہ فون پر سب کچھ دیکھتا ہے مگر پاکستان کے ٹی وی چینلز کے ڈراموں پر اعتراض کرتے ہیں، بھارتی فلموں میں سب کچھ دیکھ لیتے ہیں مگر اپنی فنکاراؤں کی اداکاری پر اعتراض کرتے ہیں، وہ آرٹ کے نام پر شبانہ اعظمی اور ریکھا کے جنسی مناظر کو خوب مزے لیکر باربار دیکھتے ہیں مگر پاکستان کی کوئی اداکارہ کردار میں جان ڈالنے کیلئے اس میں حقیقی رنگ بھرے تو غیرت جاگ جاتی ہے، دیگر ممالک کے فنکار ایسے مناظر فلمبند کرائیں تو آرٹ ہمارے کرائیں تو فحاشی۔۔

دُکھ اس بات کا بھی ہے کہ پاکستان کی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری دنیا کے معیار سے بہت پیچھے ہے جبکہ ہمارے فنکار دنیا کے کسی بڑے فنکار سے کم نہیں ہیں، صباء قمر ان میں سے ایک ہیں، ڈرامے دیکھنے کا زیادہ وقت نہیں ملتا مگر جب صباء قمر کا ڈرامہ دیکھا اس نے جان مار کر اس میں رنگ بھرا ہے، ہمارے معاشرے کی منافقت یہی ہے کہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرو اور اپنوں پر تنقید۔

تنقید کرنیوالے شائقین سے عرض ہے کہ وہ ضیاء الحق کے 1980کے اسلام سے باہر آجائیں اب 2025ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood