Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar
ہیرا منڈی سے کیفے خانوں تک کا سفر
لاہور میں ایک بازار ہے جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، اس بازار کو ایک اور نام سے بھی پکارا جاتا ہے وہ نام ہے، ہیرا منڈی، ہیرا منڈی کی 17ویں صدی میں قائم ہوئی، اس کو شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے، اس کی تاریخ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا، بس اتنا ذکر کردوں کے قیام پاکستان سے قبل نواب اپنے بچوں کو تہذیب اور ادب و آداب سکھانے کیلئے اس بازار کی طائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے، حال ہی میں ہیرا منڈی فلم ریلیز ہوئی ہے اس میں اس کی جھلک نظر آتی ہے، انداز گفتگو، احترام سے کلام کرنا یہاں کی تہذیب تھی۔
ہیرا منڈی میں ناچ گانے کا دھندا ہوتا تھا، کسی حد تک جسم فروشی بھی، ہیرا منڈی کی مین سڑکوں پر کمرے ہوتے جس کو طوائفوں کی زبان میں آفس کہا جاتا ہے جہاں صرف ناچ گانا ہوتا تھا جس عاشق کی بات آگے بڑھ جاتی تو اسے طوائقف اپنے گھر کا راستہ دکھاتی جہاں وہ دن یا رات کو کسی بھی وقت جا سکتا تھا شرط یہ ہوتی تھی کہ عاشق کی جیب بھاری ہونی چاہئے، اس گھر کو کوٹھا کہا جاتا ہے، قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی اگر کوئی نوابزادہ کسی طوائف کو دل دے بیٹھتا تو وہ اسے اس کوٹھے سے قیمت ادا کرکے لے جاتا، کوئی شادی کرکے عزت کے ساتھ گھر رکھ لیتا تو کوئی دل بھر جانے پر ڈھیر سارا مال یا جائیداد دےکر واپس ہیرا منڈی بھیج دیتا جہاں وہ نئے گاہک یا نواب کی منتظر ہوتی۔
میرا پہلی بار ہیرا منڈی جانے کا اتفاق 1986ءمیں ہوا، کزنز کے ساتھ ہیرا منڈی کی مشہور ڈش پھجے کے پائے کھانے کیلئے گئے، تمام کزنز لاہوریئے تھے، فیصلہ ہوا کہ رات گیارہ بجے جائیں گے اس وقت بازار کی رونق عروج پر ہوتی ہے، یہ ملک کے بدترین آمر جنرل ضیاءالحق کا دور تھا جس کے نام نہاد اسلامی قوانین کی وجہ سے ہیرا منڈی اجڑنا شروع ہوگئی تھی، ہیرا منڈی کا مال یعنی طوائفیں کوٹھے چھوڑ کر اس وقت لاہور میں ڈویلپ ہونے والے علاقے علامہ اقبال ٹاؤن میں منتقل ہورہی تھیں۔
پھجے کے پائے ایک کریز تھا اور ہے، معروف کرکٹر ظہیر عباس کا بھتیجا چند برس قبل ایک دفتر میں میرا کولیگ تھا وہ پھجے کی پائے جیسی "نعمت" سے محروم تھا وہ مجھے کہتا رہتا کہ مجھے پھجے کے پائے کھلانے لے جائیں تو میں اسے جواب دیتا کہ پائے کھانے کا بہانہ ہے یا ہیرا منڈی دیکھنی ہے تو اس نے جواب دیا کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے لوں گا تو میں نے کہا اب ایک ہی مزا ہے پائے کھاؤ اور پھر بادشاہ کا پان کھا کر واپس آجائیں گے کیونکہ ہیرا منڈی اجڑ چکی ہے اب وہاں وہ رونقیں نہیں رہیں، اس کا شوق پورا کیا اور اسے پھجے کے پائے کھلائے۔
خیر کزنز کیساتھ پائے کھا کر فارغ ہوئے تو میں نے کہا کہ اب بازار کی رونقیں بھی دیکھ لیں، کزنز گھبرانے لگے، کہ کسی نے دیکھ لیا تو گھر بتا دے گا تو ہماری شامت آجائےگی تو میں نے کہا اگر وہ ہمیں دیکھے گا تو ہم بھی تو اسے دیکھیں گے، چلو آؤ، ایک آفس کھلا تھا میں اور میرا ایک کزن اندر چلے گئے، باقی دو ڈر کر باہر ہی کھڑے رہے، ہم جب آفس میں داخل ہوئے تو بجلی کی تیزی سے ایک لڑکے نے پردہ آگے کردیا، طوائف نے انتہائی ادب سے جھک کر آداب کیا اور پوچھا کیا سنیں گے، میں نے کہا کچھ نہیں، بس دیکھنا تھا تو طوائف نے کہا کہ دیکھ کر کچھ نہیں ہوگا کچھ دیکھ اور سُن لیں، میں نے کہا جو پیسے تھے اس کے ہم نے پائے کھا لئے ہیں اب ہماری جیب خالی ہے تو نائیکہ نہایت شائستگی سے کہا کوئی بات نہیں آپ ہمارے مہمان ہیں، پیسے تو آتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ نائیکہ نے لڑکی کو حکم دیا کہ شاہ جی کو اپنا فن دکھاؤ، شاہ جی اس لئے کہا کہ کزن نے کہا تھا شاہ جی نکلو مجھے اچھا نہیں لگ رہا، پھر طوائف نے کہا فرمائش تو کریں تو میں ریکھا کے گانے کی فرمائش کردی، "سلام عشق میری جان ذرا قبول کرلو" طوائف نے بہت خوبصورت رقص پیش کیا یعنی حقیقی معنوں میں اعضاءکی شاعری اس طرح کی کہ بیہودگی یا لچر پن کا ذرا بھی نہیں تھا، میوزک کے مطابق جسم کے اعضاءکو حرکت دیتی، کسی اعضاءکو غیرضروری طور پر حرکت نہ دی، گھنگھروں کی چھنکار نے ماحول مزید رنگین بنا دیا، سٹوڈنٹ ہونے کے باوجود سو روپے کی کاپی لی اور طوائف پر نچھاور کردی۔
گانے سننے کے بعد احساس ہوا کہ تہذیب کیا ہوتی ہے، رخصت ہونے لگا تو نائیکہ اور طوائفوں نے بہت شائستہ انداز میں شکریہ ادا کیا، اس وقت پتہ چلاکہ نواب اپنے بچوں کو تہذیب سکھانے کیلئے کوٹھوں پر کیوں بھیجتے تھے، ضیاءالحق نے نام نہاد اسلامی قوانین نافذ کئے تو اس کی زد میں ہیرا منڈی بھی آگئی یوں یہ منڈی دھیرے دھیرے بکھرنے لگی اور طوائفوں کے کوٹھے علامہ اقبال ٹاؤن میں کوٹھی خانوں میں بدلنے لگے، ان کوٹھی خانوں کی الگ ایک لمبی تفصیل ہے جو پھر کبھی سہی۔
وقت بدلتا گیا، ہاتھ سے بجائے جانے والے ہارمونیم اور طبلے کی جگہ الیکٹرانک کی بورڈ اور ڈرم نے لے لی اور یوں ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوگیا، رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی، اب چند سالوں میں لاہور کیا ملک کے چھوٹے بڑوں شہروں میں کیفے خانے کھل رہے ہیں، ان کو مقبول بنانے کے لئے پہلے قوالیاں شروع کی گئیں، پھر ہر کیفے میں ہفتہ کے روز قوالی نائٹس ہونے لگیں، 70 روپے میں ملنے والا چائے کا کپ وہاں تین سے ساڑھے تین سو روپے کا ملتا ہے، یہی حال دیگر کھانے پینے کی اشیاءکا ہے، پھر رفتہ رفتہ بگڑے رئیس زادوں نے ان کیفے خانوں کا رخ کرنا شروع کردیا، دوستوں محفل کے لئے دیگر لوازمات کا خود ہی انتظام کرلیتے ہیں، چرس تو عام پی جاتی ہے۔
شروع میں ان کیفے خانوں میں فیملیز بھی جایا کرتی تھیں پھر لونڈوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے فیملیز ان کیفوں سے دور ہوتی چلی گئیں، مقابلہ بڑھنے لگا تو کیفے خانوں نے قوالی کی جگہ بازار حسن کی طوائفوں کو قوالوں کی جگہ بٹھا دیا اور دیدہ دلیری سے ان کی ویڈیوز بنا کر ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پر آپ لوڈ کیا جاتی ہے، لاہور کے بعض کیفے والوں نے تو حد ہی کردی ہے، جوہر ٹاؤن میں ایک مشہود کیفے خانہ ان طوائفوں میں باقاعدہ نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے، ہیرا منڈی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا مگر وہ ایک بند کمرے میں ہوتا ہے جس سے نوجوانی میں قدم رکھنے والے کسی لڑکے کو ترغیب نہیں ملتی تھی مگر کیفے خانوں والوں نے بازار حسن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
جوہر ٹاؤن کا کیفے خانہ ہر حد پھلانگ رہا ہے، وہاں گانے کے لئے جانے والی خالصتاً بازار کی تربیت یافتہ ہوتی ہیں، طوائف گانا گاتی ہے تو ایک نوجوان آگے رقص کرتا ہے اس سے اگلا قدم تو طوائف کو نچانے کا ہی ہوگا جو گھنگھرو پہن کر ناچے گی اور اس پر نوٹ نچھاور کئے جائیں گے۔
ہیرا منڈی جاتے ہوئے نوجوان منہ چھپا کر جاتا تھا مگر کیفے خانہ میں فخر سے جاتے ہیں اور تماشبینی کرتے ہیں، میں نے ایک ویڈیو فیس بک پر شیئر کی جس میں ایک گلوکارہ جس کا انداز طوائف جیسا ہی تھا اور اس کی مخالفت کی تو ایک معزز شخص نے کمنٹ کیا کہ شاہ جی فن پروموٹ تو ہو رہا ہے جس پر میرا مؤقف ہے کہ یہ فن کی خدمت نہیں بلکہ جو فن بچ گیا ہے اس کو بھی ختم کردے گا، جہاں ہر شعبہ ترقی کرگیا ہے وہاں ہیرا منڈی بھی ترقی کا سفر طے کرتے کرتے کیفے خانوں تک پہنچ گئی ہے مگر ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔