Heera Mandi Ki Reema Phir Nasir Adeeb Ki Mafi Kyun?
ہیرا منڈی کی ریما پھر ناصر ادیب کی معافی کیوں؟
آج کل معروف فلم ڈائریکٹر، رائٹر، شاعر ناصر ادیب تنقید کی زد میں ہیں، انہوں نے ایک اداکارہ کے بارے میں انتہائی نامناسب گفتگو کی جو آج کل دولت کی ریل پیل کی وجہ سے ملک پاکستان کیا دنیا کی معزز ترین اور خاندانی خاتون بن چکی ہے، ناصر ادیب نے چند روز قبل ایک پوڈ کاسٹ میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ماضی کی یادیں بتائیں۔ ناصر ادیب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، پاکستان کی فلمی دنیا کا بہت بڑا نام ہے، انہوں نے بہت سی فلمیں لکھیں، ڈائریکشن بھی دی، ان کا ایک ایسا کام رہتی دنیا تک یاد رکھا ہے جو ان کی فلم مولا جٹ ہے، اس فلم نے دو سو کروڑ کا کاروبار کیا، یورپ، امریکہ سمیت دنیا کے ہر اس ملک میں مولا جٹ کا ذکر ہوتا ہے جہاں پاکستانی رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس عظیم شخصیت پر تنقید سن کر اور پڑھ کر دلی رنج ہوا کہ ایسا کیا کہہ دیا ناصر ادیب نے جو طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ پھر وہ پوڈ کاسٹ ڈھونڈی اور تسلی سے سُنی جس میں انہوں نے ماضی کی نامور اداکارہ ریما کے بارے میں کہی تھی۔ مجھے حیرت ہے ان لوگوں پر اور ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ انہوں نے ناصر ادیب کی بات کو کس زاویے سے سنا اور سمجھا ہے۔ ناصر ادیب اپنی یادیں بتا رہے تھے کہ "میں اور یونس ملک نئی ہیروئن کی تلاش میں لاہور کے بازار حسن المعروف ہیرا منڈی گئے تو وہاں ریما متعارف کرائی گئی (جو لوگ شوبز سے وابستہ نہیں ان کو علم ہوگا کہ متعارف کرانے کے کیا آداب ہوتے ہیں)، ناصر ادیب اور یونس ملک ریما کو مسترد کرکے آگئے اس کے ساتھ ہی ناصر ادیب نے ریما کی بہت خوبصورت الفاظ میں ریما کی تعریف کی کہ جس لڑکی کو میں نے ریجکیٹ کیا تھا اس نے محنت سے فلم انڈسٹری میں اپنے فن سے اپنا نام بنایا اور صف اول کی اداکارہ بن گئی۔
مجھے تو اتنی مختصر سی گفتگو میں ناصر ادیب کی کوئی بات ایسی نہیں لگی جس میں ریما کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو اور انہوں نے اس ٹون میں گفتگو کی ہو کہ ریما کی بے عزتی ہوگئی ہو۔ ناصر ادیب جس دور کی بات کررہے ہیں اس دور میں ہیروئنوں کی اکثریت اسی بازار سے آتی تھی۔ ہیرا منڈی سے باہر سے ہیروئن آنے کا تصور ہی نہیں تھا، حد تو یہ ہے کہ لونڈے لپاڑے اداکار عمران عباس نے بھی ناصر ادیب پر تنقید کردی۔ شاید اس نوجوان کو لڑکپن سے ریما اپنی ہیروئن لگتی ہو اس لئے اسے ٹھیس پہنچی مگر حیرانگی تو اس وقت ہوئی جب جنرل رانی کی فیملی کی ایک اداکارہ نے بھی ناصر ادیب پر تنقید کے نشتر چلا دیئے۔ انعم عبید اور صنم جنگ سمیت کئی شوبز شخصیات نے بھی مذمت کی، ان جیسی اداکاراؤں کے بارے میں مثال صادق آتی ہے، میڈکیوں کو بھی زکام ہوگیا ہے، ان کی کیا حیثیت ہے جو ایک لیجنڈ پر بات کریں۔
کسی کو شک ہے کہ ریماکا تعلق ہیرا منڈی سے نہیں بلکہ ایک اچھی فیملی سے ہے تو ان کی بات کسی حد تک درست کہہ سکتے ہیں مگر اس کی تربیت ملتان کی ہیرا منڈی حرم گیٹ میں ہی ہوئی جہاں وہ پروان چڑھی، پھر فلموں میں کام لینے کیلئے اس کی والدہ ریما سمیت لاہور کی ہیرا منڈی منتقل ہوگئیں۔ ریما کے والد کا تعلق ملتان سے ہے جو کہ قزلباش فیملی ہے، ان کے والد جوانی میں رنگین مزاج تھے، ان کی والدہ سے محبت ہوگئی اور پھر اس سے دوسری شادی کرلی، قزلباش صاحب کی خاندانی بیٹیاں پڑھی لکھی ہیں اور پاکستان کی سول سروس میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔
قزلباش صاحب ملتان کے کروڑ پتی شخص ہیں، ان کی اب جائیداد شاید اربوں میں ہوگی کیونکہ وہ شہر میں آچکی ہیں، وہ ریما کی ماں سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی پڑھانا چاہتے تھے مگر سیانے کہتے ہیں کہ ہر چیز اپنے اصل کی طرف جاتی ہے۔ بچے بڑے ہوئے تو ریما کی ماں نے پھر حرم گیٹ کا راستہ چنا اور طلاق لیکر بچوں سمیت اسی دلدل میں کود گئی کیونکہ وہ ریما کو فلم سٹار بنانا چاہتی تھی جس میں وہ سو فیصد کامیاب بھی رہیں۔
زیادہ تفصیل اس لئے نہیں لکھ رہا کہ ریما کی فیملی کے لئے مسائل پیدا نہ ہوں ورنہ کون نہیں جانتا کہ شیخ رشید کیساتھ ان کا سکینڈل کتنا مشہور ہوا تھا، یو ٹیوب پر اس حوالے سے بے شمار ویڈیوز موجود ہیں، ریما فلم سٹار بن گئی اور اچھی ادکارہ بنی جس کا میں بھی فین تھا۔ فلم انڈسٹری میں اداکارہ رانی اور عالیہ کے بعد اگر کوئی رقاصہ فلم انڈسٹری میں مدت بعد پیدا ہوئی تو وہ اداکارہ ریما ہی تھی جس کے بعد اب تک کوئی رقاصہ نہیں بن سکی، اللہ نے اس کو بہت عزت دی اور باعزت طریقے سے وہ شادی کرکے ارب پتی شوہر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے اللہ اسے شاد آباد رکھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس شعبے نے ریما کوعزت، شہرت، پیسہ دیا وہ شعبہ اب ریما کیلئے برا کیوں بن گیا، ناصر ادیب کی بات پر ریما نے جو جواب دیا الٹا وہ ایک سینئر اور تخلیقی شخصیت کی توہین ہے جس پر ریما کو شرم آنی چاہئے اور ان سے معافی مانگنی چاہیئے، ریما فرماتی ہیں، "اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اس وقت کہیں جب آپ کے شر سے باقی مخلوق محفوظ ہوں"۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس میں شر کیا تھا، وہ تو معمول کی بات بتا رہے تھے، ہر فیلڈ میں کام کرنیوالوں کے دلوں میں بہت سے راز ہوتے ہیں، ریما کی شوبز کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہونگے جن کو وہ اب بھی یاد کرتی ہوں گی اور کئی بار وہ کئی شوز میں سنا بھی چکی ہیں۔
کہتے ہیں کہ دل میں چور ہوتا ہے، ریما سوچتی ہوں گی کہ جب ان کے بچے بڑے ہونگے اور وہ ناصر ادیب کی ہیرا منڈی والی بات سنیں گے تو وہ کیا سوچیں گے، کیا کیا جائے، سچ تو سچ ہے، ریما بچے کے جدید دور کے بچے ہیں اس دور میں بھی ہیرا منڈی قائم رہتی تو اتنی بری نہ سمجھی جاتی کیونکہ ہیرا منڈی والے کام آج کل ہر ایک بندے کو اس کے ہاتھ میں موجود موبائل میں بآسانی مل جاتے ہیں، ریما اپنے بچوں کو سمجھا سکتی ہیں کہ انہوں نے فن کی تعلیم لاہور کی فن کی ایک صدی پرانی یونیورسٹی سے حاصل کی جس کی وجہ سے وہ کامیاب ترین اداکارہ بنیں۔
مجھے اپنا ماضی چھپانے والے لوگ بہت برے گندے لگتے ہیں، زندگی میں کامیاب ہونے پر ان کو اپنا ماضی برا لگنے لگتا ہے، یہ مسئلہ صرف ریما اور ان کی حامی اداکاراؤں کا ہی نہیں ماضی میں بھی ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ جہاں ان کے ماضی کی بات آتی تھی وہ سیخ پا ہوجاتے تھے، ملکہ پکھراج، طاہرہ سید کی والدہ کا تعلق بھی اسی بازار سے تھا، اللہ ان کو بہت عزت دی، بعد میں وہ بھی معزز شخصیت بن گئیں، انہی خدمات کے صلے میں ان کو پاکستان فلم سنسر بورڈ کا رکن بنا دیا گیا۔
ایک بار فلم سنسر کرنے کیلئے بورڈ کا اجلاس ہو رہا تھا اس فلم میں منور ظریف کی ایک جگت پر ملکہ پکھراج نے اعتراض کر دیا کہ یہ فقرہ بہت نامناسب ہے اس کو کاٹ دیں جس پر منور ظریف نے کہا میڈم اس فقرے میں کوئی بیہودگی نہیں ہے جس پر ملکہ نے کہا تمھاری بات ٹھیک ہے منور، مگر مجھے اچھا نہیں لگا، وہ سین یہ تھا کہ منور ظریف ایک زیادہ بولنے والے شخص کو کہتے ہیں "اے مُچھاں والی کنجری نوں تے چھپ کراؤ"، مجبوراً سنسر بورڈ کو یہ فقرہ سنسر کرنا پڑا کیونکہ ملکہ اس وقت بہت بااثر تھیں۔
ناصر ادیب جیسی مہذب اور ذہین شخصیت جنہوں نے چار دہائیاں فلمی صنعت میں گزاریں، ان کا کوئی سکینڈل نہیں ہے، بلاوجہ کی تنقید پر وہ انتہائی رنجیدہ ہوئے اور مجھے ان کی معذرت کی ویڈیو دیکھ کر دلی رنج ہوا کہ ایک تخلیق کار جو کسی کی توہین کا سوچ ہی نہیں سکتا، لونڈے لپاڑوں اور ٹٹو ٹیروں کی باتوں پر اپنی عزت بچانے کیلئے عوام کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا ہے، یہی اس ملک کا المیہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کی عزت نہیں کرتے، جو ہر رات ہیرا منڈی گزارتے ہیں وہ معاشرے میں عزت پاتے ہیں۔