Geo Ki Mafi Aur Londa Lapara Anchor
جیو کی معافی اور لونڈا لپاڑہ اینکر

جیو نے جمعرات کو ایک سیلاب متاثرہ شخص کی گفتگو نشر ہونے پر معافی مانگ لی ہے، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوجوان انتہائی پریشانی اور مایوسی کی حالت میں حکومت سے کہہ رہا تھا کہ ہر سال سیلاب ہمیں ڈبو دیتا ہے حکومت کچھ کریگی یا ہم ہر سال "ڈوبتے" رہیں گے، نوجوان نے پنجابی کا جو لفظ استعمال کیا وہ ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا، ویسے بھی پنجابی کی ایک گالی ایک ہزار الفاظ سے بہتر ابلاغ کرتی ہے اور نوجوان نے ایسا ہی کیا، گالی دیکر اپنا پیغام حکمرانوں تک پہنچا دیا اب جیو جتنی مرضی معافیاں مانگتا رہے نوجوان کا کام ہوگیا ہے۔
نوجوان کی گالی سوشل میڈیا پر اتنی وائرل نہیں ہوئی تھی مگر جب جیو نے معافی مانگی تو حد سے زیادہ وائرل ہوگئی، لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ویڈیو دیکھتے اور پوسٹ کرتے رہے، صحافت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی چھپ جائے تو خاموشی بہتر ہوتی ہے اور جب اس غلطی کی معذرت چھاپ دی جائے تو لوگوں کو تجسس ہوتا ہے اور وہ غلطی ڈھونڈ کر دیکھتے ہیں کہ کیا چول ماری گئی ہے۔
اسی حوالے ایک تاریخی واقعہ پڑھتے جائیں، ملک معراج خالد جب نگران وزیراعظم بنے تو روزنامہ جنگ نے سنڈے میگزین کیلئے ان کا انٹرویو کیا، معراج خالد درویش صفت شخص تھے، انہوں نے محنت اور ایمانداری سے سیاست میں اپنا مقام بنایا تھا، اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین بہت غریب تھے اس لئے وہ دودھ فروخت کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرتے تھے، انٹرویو میں فقرہ شائع ہوگیا کہ ہم اپنی "بہنوں" کا دودھ فروخت کرکے گزارہ کرتے تھے، اگلے روز روزنامہ جنگ نے صفحہ اول پر معذرت شائع کی کہ معراج خالد نے کہا تھا کہ "ہم اپنی بھینسوں کا دودھ بیچ کر گزارہ کرتے تھے"، اس سہواً غلطی پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔
معذرت کے شائع ہونے کے بعد عوام نے جنگ کا وہ انٹرویو ڈھونڈنا شروع کردیا کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا اور پرانا اخبار ملنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ اکثر لوگ اخبار پڑھنے کے بعد اس میں روٹیاں یا پکوڑے لپیٹ لیتے تھے، روزنامہ جنگ کی معذرت نے دنیا کو وہ فقرہ بھی پڑھا دیا جس پر معذرت کی تھی ورنہ اکثریت نے وہ فقرہ پڑھا ہی نہیں تھا۔
اخبار ہو ٹی وی چینل اس میں نیوز روم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، یہ بات ہم نے ایم اے ماس کمیونیکیشن میں پڑھی تھی اور 30 سالہ نیوز روم میں خبروں کی ایڈیٹنگ نے یہ بات ثابت کی ہے، اخبارات میں بہت دلچسپ غلطیاں شائع ہوتی رہی ہیں، 1995-6 کی بات ہے، رونامہ نوائے وقت کا "سرراہے" کالم بہت مشہور ہوتا تھا جس میں بہت شاندار طنز کی جاتی تھی، ایک دور میں سی ٹی بی ٹی (جوہری تجربات پر پابندی کا معاہدہ) کا بڑا چرچہ تھا، پروفیسر سلیم مرحوم سرراہے لکھا کرتے تھے، بہت ذہین اور قابل شخصیت تھیں، اس دور میں نوازشریف وزیراعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلی تھے اور انہوں نے اس وقت تک بال بھی نہیں لگوائے تھے، پروفیسر سلیم مرحوم نے دونوں بھائیوں پر خوبصورت طنز کی کہ سی ٹی بی ٹی دو بھائیوں کو کہتے ہیں، یعنی چھوٹی ٹنڈ، بڑی ٹنڈ، پھر پروفیسر صاحب سی ٹی بی ٹی کو دونوں بھائیوں کیلئے استعارہ کے طور پر لکھتے رہے، انہوں نے دو تین بار دونوں بھائیوں کو سی ٹی بی ٹی کہہ کر مخاطب کیا تو نواز شریف جو اس وقت وزیراعظم تھے انہوں مجید نظامی کو باقاعدہ تحریری طور پر شکایت کی اب ہماری نوائے وقت میں اس طرح عزت افزائی ہوگی، انہوں نے معذرت شائع کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
پروفیسر صاحب کے سی ٹی بی ٹی لکھنے پر دونوں بھائیوں کو ایک عرصہ تک اسی نام سے پکارا جانے لگا، نوازشریف کی شکایت پر مجید نظامی نے پروفیسر صاحب کو اپنے دفتر میں بلایا اور وزیراعظم کی تحریری شکایت سامنے رکھ دی جس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ وزیراعظم کو چھوڑیں، آپ اخبار کے ایڈیٹر ہیں بتائیں معذرت شائع کرنی ہے یا سی ٹی بی ٹی لکھنا بند کردوں تو مجید نظامی نے کہا کہ معذرت کرنیوالی تو کوئی بات نہیں اور نہ ہی آپ کو منع کرتا ہوں، بس یہ ہے کہ ہتھ ہولا رکھیں۔
سرراہے کا ذکر ہوا ہے تو ایک اور واقعہ پڑھ لیں، نوائے وقت کے قارئین کی اکثریت صبح اخبار میں خبروں کے بجائے پہلے سرراہے پڑھا کرتے تھے، ایک دن پروفیسر سلیم نے حالات حاضرہ پر لکھا تو اس میں ایک فقرہ تھا" اگر یہی صورتحال رہی تو عوام بہت جلد سُن لیں گے۔۔ " ٹائپنگ کی غلطی سے سُن لفظ میں سین کے بجائے ل (ل ن) شائع ہوگیا، نوائے وقت کا قاری اخبار کو اپنے دادا کا اخبار سمجھتا تھا، ایک غلطی پر روزانہ درجنوں فون آیا کرتے تھے، جب سرراہ میں یہ شائع ہوا تو صبح کہرام مچ گیا، نوائے وقت کے دفتر میں ٹیلی فون کالوں کا تانتا بند گیا۔
میں اس وقت نوائے وقت ملتان کے نیوزروم میں سب ایڈیٹر تھا، اتنے زیادہ فون آئے کہ ہر ایک کی ڈیوٹی لگ گئی کہ وہ تین سے چار فون کالز سُنے گا، ہیڈآفس سے سخت ہدایات آئیں کہ لوگوں کے غصہ کو تحمل سے برداشت کریں اور شائستہ انداز میں معذرت کریں، دوپہر کو ہمارے دوست الطاف شاہد کی فون کالز سننے کی باری آئی تو دو، تین معذرت کے بعد ایک شخص کا فون آیا اور کہا کہ یہ آپ نے سرراہے میں کیا شائع کردیا ہے جس پر الطاف شاہد نے معذرت کی مگر ان صاحب نے اسرار کیا کہ ایک بار وہ فقرہ مجھے پڑھ کر سنائے، الطاف شاہد نے کئی بار معذرت کی اور کہا کہ جناب معافی دیدیں، مجید نظامی نے غلطی کرنیوالے ملازم کو نوکری سے نکال دیا ہے(یہ اس نے جان چھڑانے کیلئے جھوٹ بولا تھا)۔
وہ شخص بضد رہا کہ نہیں ایک بار آپ وہ فقرہ مجھے پڑھ کر سنائیں جو چھپا ہے، مجبوراً الطاف شاہد نے وہ فقرہ پڑھا "اگر یہی صورتحال رہی تو عوام بہت جلد ل ن لیں گے"، جس پر اس قاری نے کہا جناب یہ مشورہ آپ عوام کو جو دے رہے ہیں بہتر نہیں یہ آپ خود لے لیں، یہ بات سن کر الطاف شاہد نے فون ٹھاہ کرکے بند کردیا۔
مزید بہت سے دلچسپ واقعات ہیں ان کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انسان غلطی کا پتلا ہے، ہمیں سنیئرز نے ایک سبق پڑھایا تھا کہ اگر غلطی ہو جائے تو فوراً معافی مانگ لو، بہانے بناؤ گے تو پھنس جاؤ گے، نیوز ایڈیٹنگ بہت مشکل کام ہے، رپورٹرز کی اکثریت ایسی ہے جن کو تیس سال گزرنے کے باوجود خبر بنانا نہیں آتی، یہ نیوز روم ہی جو اخبار اور چینل کی خبروں خوبصورت سرخیوں سے چار چاند لگا دیتا ہے، چٹ پٹے جملے، متوجہ کرنیوالے فقرے خبر میں جان ڈال دیتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ جیو کی معافی نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا ہے، ایک معروف اینکر جس نے شاید نیوز روم کی شکل ہی نہیں دیکھی، ایسے اینکرز کو میڈیا کی لغت میں پیرا شوٹر کہا جاتا ہے، چند سالوں میں بہت ترقی کرگئے ہیں اور اب وہ خود کو عقل کل سمجھنے لگے ہیں، انہیں اینکر صاحب نے ایک سیاسی جماعت کے نوجوانوں کو لونڈے لپاڑے قرار دیا ہے۔
جیو کی معافی پر انہوں نے اپنے وی لاگ میں جیو کی حمایت کرکے اپنے لونڈے لپاڑے اینکر ہونے کا واضح ثبوت دیدیا ہے، ان کا فرمانا تھا کہ وہ خود جیو کراچی میں کام کرچکے ہیں جہاں کے نیوز روم میں بہت قابل اور ذہین لوگ بیٹھے ہیں اور زیادہ تر اردو سپیکینگ ہیں اس لئے وہ پنجابی کی یہ گالی سمجھ نہیں سکے اور سیلاب سے متاثرہ نوجوان کی گفتگو آن ایئر ہوگئی، اصل غلطی اس نمائندے کی ہے جس نے یہ کلپ ہیڈ آفس بھیجا، اس کا فرض تھا کہ وہ گالی ایڈٹ کرکے بھیجتا۔
اس لونڈے لپاڑے اینکر کی بات سن کر سر پکڑ لیا، کیا جہالت کے اعلی درجے پر فائز ہیں، ان کو یہ معلوم نہیں کہ نیوزروم میں دنیا بھر سے ایسی ایسی خبریں آتی ہے جن کو آپ اسی طرح نہیں چلا سکتے، نیوز روم کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ خبر کو خبر بنائیں، بندہ پوچھے جس نمائندے نے وہ کلپ بھیجا اس کو جیو تنخواہ دیتا ہے اور کیا اس کو ضروری آلات فراہم کئے ہوئے تھے جس سے وہ اس ویڈیو کی ایڈیٹنگ کرتا، مفت کے نمائندے دنیا بھر میں رکھ کر میڈیا مالکان کمائی کرتے ہیں، اس اینکر کو یہ علم ہی نہیں کہ ٹی وی کے نیوز روم میں خبر اور پیکیج بنانے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔
غلطی ہوئی اور جیو نے کھلے دل سے معافی مانگ کر اچھی روایت قائم کی جس کی تعریف کرنی چاہئے، جیو نے پروفیشنل ذمہ داری پوری کی مگر لونڈے لپاڑے نے جیو کے دوستوں سے یاری نبھائی اور پروفیشنل بددیانتی کرتے ہوئے مدعا غریب نامہ نگار یا نمائندے پر ڈال دیا، مسئلہ یہ ہے لونڈے لپاڑے صرف سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں، الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز بھی پائے جاتے ہیں لہذا عوام ایسی غلطیوں پر کڑنے کے بجائے انجوائے کیا کریں۔

