Neela Thotha
نیلا تھوتھا
نیلا تھوتھا ایک ان آرگینک مرکب ہے، کیمیائی نام جس کا کاپر سلفیٹ ہے۔ آسان زبان میں بات کروں تو یہ زہر ہے۔ زندگی ختم کر دیتا ہے۔ اس میں"تھوتھا" ایک مکمل لفظ ہے۔ اس کے پہلے حصے میں"تھو" کا تلفظ جو، کو، نو، وغیرہ کے وزن پر کیا جاتا ہے۔
بعض لوگ "تھو تھا" میں سپیس یا وقفہ دے کر لکھتے ہیں اور پہلے "تھو" کو بُو، لُو وغیرہ کے وزن پر تُھو پڑھتے ہیں، جو تھوکنے کی آواز یا علامت ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے۔
یہ کہنا کہ "نیلا تُھو تھا" نہ صرف گرامر کے لحاظ سے غلط ہے بلکہ بے مروت عمل ہے۔ اس لیے کہ ہمیں ان دوستوں کی پسند اور احساسات کا خیال رکھنا چاہیے جن کو نیلا رنگ پسند ہے۔ نیلا خود "مروت" سے کنارہ کر لے تو وہ نیلے کی مرضی لیکن جہاں تک ممکن ہو انسان کو بے مروت نہیں ہونا چاہیے۔
اگر دوست آپ کے منہ سے "نیلا تُھو تَھا" سنیں گے تو ان کو افسوس ہوگا کہ آپ ان کے پسندیدہ رنگ کو تھوکنے کی خواہش کر رہے ہیں اور ساتھ "تھا" کہہ کر اسے قصہ ماضی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ نیلا رنگ دیگر رنگوں کی طرح آج بھی کئی جگہوں اور چیزوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نیلے ڈائپرز، بستر تک محدود مریضوں کی ڈگنٹی شیٹس، چوروں کا تعاقب کرتی پولیس کی گاڑیاں، اور کوڑا اکٹھا کرنے والے بیگز وغیرہ۔
اس کے علاوہ انگریزی اور اردو زبانوں کے محاوروں حتی کہ گانوں میں بھی نیلے رنگ کے متعدد حوالے شامل ہیں۔
مثلاً انگریزی میں آؤٹ آف بلیو (out of blue)، بلیو کالر (blue collar) اور ونس ان اے بلیو مون (once in a blue moon) وغیرہ عام محاوراتی اظہار ہیں۔
پنجابی گلوکار، لیڈر اور اپنے فلاحی ٹرسٹ کے لیے چندہ جمع کرنے کے ایکسپرٹ ابرار الحق کے ایک مشہور گیت کا بول ہے۔
"نیلی گھوڑی وے وکیلا تیری جے پہلی پیشی یار چُھٹ جائے"
اسی گانے میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں
"جِیپاں آ گئیاں کچہریوں خالی وے سجناں نوں قید بول گئی"۔
ابرار الحق کا یہ خوب صورت گیت سنیں تو اس مرحلے پر ان کی آواز اور گیت کے بول میں اتنا درد ہے کہ بے اختیار انسان کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دل بیٹھ رہا ہے، رنگت نیلی پڑنے لگتی ہے۔
شاید یہی گانا سنتے ہوئے پنجابی شاعر زاہد وفا کا دل ایسا پسیجا کہ انہوں نے ابرار الحق اور ان کے فینز کی دلجوئی اور تسلی کے لیے درج ذیل بولی کہی۔
ساڈا بولے نہ وکیل اُکا چندرا
نی تیرے ولوں جج بولدا
یہ پنجابی بولی اتنی پُر اثر ہے کہ اسے پڑھ کر میرا دوست قاضی مِن نیلا اتنا رویا اتنا رویا کہ رو رو کر اسی کی ہچکی بندھ گئی۔
ہچکی تو بندھ گئی لیکن دھوتی کھل گئی۔ کیونکہ دھوتی بالخصوص گرمیوں میں مقبول ترین پنجابی لباس ہونے کے باوجود ایک ایسا پہناوا ہے جس کی گانٹھ ہچکیوں سے رونے والے توندیل مردوں کے پیٹ ہلنے سے بتدریج ڈھیلی پڑتی رہتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب دھوتی کھل کر ساری کمزوریاں عیاں کر دیتی ہے۔
نیلی دھوتی وے مِن نیلا تیری ی ی ی
جے اگلی پیشی یار چُھٹ جائے