Mastung Ka Adam Khor Bheriya, Purasrar Madrassa Aur Pakistan Ka Mustaqbil
مستونگ کا آدم خور بھیڑیا، پُر اسرار مدرسہ اور پاکستان کا مستقبل
تحصیل مستونگ میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعیناتی کا دوسرا سال تھا۔ ایک دور دراز گاؤں کے بارے میں سنا کہ ہر رات ایک بھیڑیا آتا اور غریب بلوچ گڈریوں کی بھیڑیں اٹھا لے جاتا ہے۔ ایک جوان چرواہے نے مزاحمت کی تو اسے چیر کھایا۔ منہ کو انسانی خون کیا لگا اب انسانوں پر حملہ کرنے سے بھی نہ کتراتا تھا۔ گاؤں اور گرد و نواح میں خوف کا راج تھا۔ دیہاتی سرِ شام ہی مویشیوں کے ساتھ گھروں میں بند ہو جاتے۔ تاہم آدم خور درندہ اتنا دیدہ دلیر ہوگیا تھا کہ اس کے باوجود ہر روز کسی جھونپڑے کی گھاس پھونس کی دیوار توڑتا اور بھیڑ اچک لے جاتا۔
میرے ڈرائیور نے کہ اسی گاؤں کا تھا، یہ بات بتائی تو دل لرز اٹھا۔۔ "روز قیامت پوچھا گیا کہ تم کو مستونگ میں کفیل بنایا تھا، میری مخلوق درندے کے آزار سے تنگ تھی، ان کی حفاظت کے لیے کیا کیا تو خدا کو کیا جواب دوں گا"۔
یہ خیال آنا تھا کہ پھر دفتر میں بیٹھا نہ گیا اور کچھ ہاتھ نہ آیا تو لکڑیاں کاٹنے والی کلہاڑی اور کھیرے کاٹنے والا چاقو اٹھایا اور جیپ کو "ایڑ" لگا دی۔
ڈرائیور کو ساتھ آنے سے منع کر دیا کہ یہ میرا فرض ہے، تمہاری جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔
گھنٹوں کچے، پتھریلے رستوں پر جیپ دوڑاتا مغرب سے تھوڑی دیر پہلے درندے کی عملداری والے گاؤں جا پہنچا۔ جاتے ہی منادی کرا دی کہ رب کی طرف سے مقرر کردہ تمہارا رکھوالا آن پہنچا، آج بے فکر ہو کر اپنے گھروں میں سو جاؤ۔ میں حفاظت کروں گا۔
اس کے بعد گاؤں کے باہر ایک ٹیلے پر مورچہ لگایا جہاں سے پورے گاؤں پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ اس جگہ کا انتخاب یوں کیا کہ درندہ رات کو حملہ آور ہونے آئے تو پہلے سے ہی موذی کے سامنے پہنچ کر اس سے دو دو ہاتھ کر سکوں۔
لالٹین، کلہاڑی، چاقو اور تائید ایزدی کے سہارے میں ٹیلے پر چوکس بیٹھا تھا کہ اذانِ مغرب کے ساتھ فضا میں اللہ کی کبریائی کا کلمہ بلند ہوا۔ اذان مکمل ہوئی تو میں ادھر ہی سجدہ ریز ہوگیا۔ معلوم نہیں یہ سر بسجود ہونے کی کیف آور کیفیت تھی یا رستے میں روش کے ساتھ تین افغانی نان کھانے کا خمار کہ سجدے میں ہی گہری نیند نے آن لیا۔ نیند کا غلبہ اتنا شدید اور اچانک تھا کہ دماغ کی مزاحمت اور وارننگ کے باوجود کہ یہاں سونا موت کو دعوت دینا ہے، آنکھوں کو بند ہونے سے نہ روک پایا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک وسیع میدان ہے جس کے درمیان میں ایک مدرسہ ہے لیکن وہ بالکل خالی نظر آتا ہے۔ کھجور کے پتوں کی بس ایک چٹائی ہے جس پر ایک نورانی صورت بزرگ بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے ایک پنجابی حلیے والا لڑکا بیٹھا ہے۔ لڑکے اور بزرگ کے درمیان رحل پر کلام مقدس رکھا ہے اور لڑکا ہل ہل کر یوں تلاوت کر رہا ہے جیسے ازبر کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
حیران کن بات کہ لڑکے کے ماتھے سے نور کی ایک لاٹ نکلتی ہے جس پر نظر جمانا ناممکن لگتا ہے۔ میں پریشان کھڑا سوچتا ہوں کہ الہی یہ کیا منظر ہے۔ اسی اثنا میں بزرگ مجھے ہاتھ کے اشارے سے بلاتے ہیں۔ میں بنا کچھ سوچے ایک معمول کی طرح فوراً ان کی طرف چل پڑتا ہوں۔ قریب پہنچتا ہوں تو بزرگ کرتے کی جیب سے ہاتھ نکال کر تہہ کیا ہوا ایک کاغذ مجھے پکڑاتے ہیں۔ میں کاغذ پکڑ کر پتلون کی جیب میں رکھ لیتا ہوں۔ اس عرصے میں لڑکا سر تک نہیں اٹھاتا۔ سبق دہرانے میں مشغول رہتا ہے۔
بزرگ پہلے کی طرح انگلی کے اشارے سے ہی مجھے واپس جانے کا اشارہ کرتے ہیں۔ ابھی میں نے واپسی کے لیے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا ہوتا کہ میدان، بزرگ، مدرسہ اور لڑکا ایک دم غائب ہو جاتے ہیں۔ وہاں بس چٹیل سا ایک ٹیلہ رہ جاتا ہے اور آسمان سے آتی تیز روشنی سے میری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ خوف اور حیرت سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
کیا دیکھتا ہوں کہ مشرقی افق سے سورج ابھر آیا ہے۔ ان تیز کرنوں سے بچنے کے لیے ماتھے پر ہاتھ کا چھجا بناتا ہوں تو نیچے گاؤں سے تین گڈریے تیز تیز قدم اٹھاتے ٹیلے کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں۔ پاس پہنچتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں بھیڑ کے تازہ دودھ اور رات کی بچی روٹی کا ناشتہ ہوتا ہے۔ ایک نے پانی کی چھاگل اٹھائی ہوئی ہے۔ وہ میرے ہاتھ چومتا ہے۔ چومنے سے پہلے دھلواتا ہے۔ دوسرے دونوں میرے سامنے ناشتہ رکھتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ سوا برس میں یہ پہلی رات تھی کہ بھیڑئیے نے حملہ نہیں کیا۔
ہاتھ دھلوا کر چومنے والا کہتا ہے، "بھیڑیا آیا، آپ کو سونگھا اور ناک سے شوں شوں کی خوف ناک پھنکاریں نکالتا ہوا بھاگ گیا۔ ہم آپ کی جرات پر حیران ہیں کہ آپ خوف ذدہ ہوئے، نہ اٹھے نہ اسے مارنے کی کوشش کی"۔
اب میں انہیں کیا بتاتا کہ میں کہاں تھا۔ ناشتے کے بعد مجھے اس کاغذ کا خیال آیا جو بزرگ نے مجھے دیا تھا۔ جیب سے نکال کر پڑھا تو اس پر خط نسخ میں درج ذیل تحریر تھی۔ سچی بات ہے اس وقت مجھے سمجھ نہ آئی تھی کہ یہ کیا ہے، لیکن آج سارے عُقدے کھل چکے ہیں۔ اور منظر نامہ واضح ہے۔ مملکت خداداد کا مستقبل روشن ہے۔ اس میں رتی برابر شک نہیں۔ کاغذ پر لکھا تھا۔
"یہ لڑکا خدا کے کلام کو سینے میں محفوظ کر رہا ہے۔ بڑا ہو کر یہ سینہ تان کر تمہاری بستی کی حفاظت کرے گا۔ اسے یہ ذمہ داری سونپنے کا لمحہ آئے گا تو ایک لنگڑا کھلنڈرا اور مچھیروں کی بستی سے آیا ہوا معالج کھنڈت ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ تب تم ادھر ہی موجود ہو گے، تم دلیری سے اس کے حق میں گواہی دینا"۔