Aik Shehri Ke 14 Nuqat
ایک شہری کے 14 نکات
1۔ کیا آپ کو معلوم ہے اس ملک میں کتنے پولیس والے شہید ہوئے ہیں؟
2۔ کیا آپ جانتے ہیں وباؤں میں اور لگاتار طویل ڈیوٹیوں سے اگزاسٹ ہو کر میڈیکل سے وابستہ کتنے لوگ جان سے گئے ہوں گے؟
3۔ کیا آپ کو علم ہے کہ دور دراز دیہات میں بغیر سہولتوں کے، معمولی تنخواہ کے عوض نسل در نسل بچوں کو تعلیم دینے والے کتنے سرکاری اور پرائیویٹ اساتذہ کے اپنے بچے وسائل کی کمی کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں گے؟
4۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے گھروں کو روشن اور ٹھنڈا گرم رکھنے کے لیے واپڈا کے کتنے اہلکار حادثات میں مرے ہوں گے؟
5۔ مردم شماری سے لے کر گھروں میں جراثیم کش سپرے کا کام بھی اساتذہ نے کیا ہے، یہ تو خیر آپ سے پہلے کی بات ہے آپ کیسے جانتے ہوں گے؟
6۔ پولیو کے قطرے پلانے والوں کے مرنے کی باتیں اس دور کی ہیں، اس لیے یاد ہوں گی۔ لیکن کتنے مرے، معلوم نہ ہوگا۔
7۔ ریسکیو 1122 کی سروس بھی نسبتاً نئی بات ہے اس کے بارے میں تو جانتے ہوں گے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کتنے ریسکیو ورکر مریض اٹھاتے، آگ بجھاتے، کنویں میں گرے انسان اور جانور نکالتے گھائل ہوئے ہیں؟
8۔ سول ڈیفینس اور فائر بریگیڈ علیحدہ علیحدہ محکمے ہیں۔ خدمت کرتے ہوئے ان کے کتنے لوگ جان سے گزر گئے کیسے معلوم ہوگا کہ دونوں ہی یتیم سے شعبے ہیں؟
9۔ آپ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو سڑکوں پر جھاڑو لگا ہوتا ہے، سیوریج بند نہیں ہوتا ورنہ کموڈ سے غلاظت گھروں میں واپس لوٹ آئے۔۔ یہ سب کیسے ہو رہا ہوتا اور جو یہ کر رہے ہوتے وہ کہاں رہتے ہیں، ان کے ساتھ کیا بیتتی ہے یہ بھلا آپ کو کیسے معلوم ہوگا؟
10۔ ملک بھر میں سپلائی چین کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے گڈز ٹرانسپورٹ کے لاکھوں ورکرز کا کیا مستقبل ہے، وہ مرتے ہیں تو کیا پیچھے ان کے پسماندگان جینے جوگے رہتے ہیں، یہ بھلا کیسے معلوم پڑے کہ عوامی دلچسپی کا موضوع نہیں۔
11۔ سارے ملک کا پیسہ بینکوں میں پڑا ہے۔ کاروبار ہے لیکن اہم ترین سروس ہے۔ آپ کی امانتوں کے محافظ کئی بار بینک ڈکیتیوں میں مرے ہوں گے۔ کتنے؟ آپ کو کہاں معلوم ہوگا۔ یہ بھلا کوئی سوچنے والی بات ہے۔
12۔ ایدھی، چھیپا اور کئی ایمبولینس سروس والے جو وقت پر ہمارے بیماروں کو ہسپتال لے جاتے ہیں، مرنے والوں کو گھر لے آتے ہیں، حادثات کی جا سے زخمی اٹھاتے ہیں۔۔ خود کس حال میں رہتے ہیں یا جھگڑوں میں مدد کرتے کتنے اندھی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں، کون رکھے ایسی معلومات؟
13۔ واچ ڈاگ کا رول نبھاتے، آپ کے لیے مقتدر اشرافیہ پر نظر رکھتے، معمولی اور بعض اوقات وہ بھی نہ ملنے والی تنخواہ کے عوض شہری آزادیوں کا رومانوی خواب آنکھوں میں سجائے کتنے صحافی نوجوانی میں بیمار پڑے ہوں گے، کتنے بھوک سے مرے ہوں گے، کتنوں کو طاقتوروں نے مارا ہوگا، یہ آپ کو بھلا کہاں معلوم ہوگا۔ آپ کو تو صرف اتنا پتہ ہے صحافی لفافی ہوتا ہے۔
14۔ کتنے سیاست دان ہیں جن کی زندگیاں خواب دیکھتے اور ان کی تعبیر تراشتے گزر گئیں۔ جو بدنام کیے گئے، جیلوں میں بند کیے گئے، ان پر تشدد ہوا، وہ قتل ہوئے، ان کے بچے تک مارے گئے۔۔ لیکن دفع کریں ان کرپٹوں کو کون یاد رکھے۔
ہاں آپ سب کو معلوم ہے کہ فوج کے شہید کتنے ہیں، فوج آفات میں کیسے مدد کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے کہ فوج جو تاثر بنانا چاہتی ہے اس کی تشہیر کا باقاعدہ اہتمام کرتی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس غیر معمولی وسائل ہیں۔
فوج کا کردار اہم ہے۔ لیکن ہمیں صرف وہ دکھایا جاتا ہے جو فوجی اشرافیہ کو پسند ہے۔ ہمیں اس فوجی کا حال نہیں دکھایا جاتا جو سیاچن سے پنوں عاقل تک سرد و گرم جھیل کر ریٹائر ہوتا ہے اور باقی عمر بچوں کی کفالت کے لیے کسی کاروباری ادارے کے گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ بن کر گزار دیتا ہے۔
لوگوں کی سوچ کا رخ سرکاری اور غیر سرکاری ترجمانوں کے باقاعدہ سائنسی پراپیگنڈے سے موڑا جاتا ہے کہ وہ ایسے سوالات سے دور رہے کہ فوج ایوب، ضیا، یحییٰ اور مشرف جیسے آئین شکنوں کی مذمت کیوں نہیں کرتی۔
یہ کوئی قبیلہ نہیں جسے اپنے سربراہ کا ہر قیمت پر قبائلی عصبیت کی وجہ سے دفاع کرنا ہے۔ یہ ایک پروفیشنل ادارہ ہے۔ ڈسپلن کی پاس داری جس کا دعویٰ ہے۔
ڈسپلن، حلف اور آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ان افراد کی مذمت تو درکنار الٹا ان کا تحفظ کہاں کی دانش مندی ہے؟
جدید انسانی سماج قانون اور مساوات کے اصول کے تحت ترتیب پانے والا بندوبست ہے۔ یہاں قوانین سے ماورا انتظام دوام نہیں پا سکتے، ان سے معاشرے میں استحکام پیدا نہیں ہو سکتا، بے چینی اور اضطراب کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
انسانی نفسیات ہے کہ اسے جہاں مفاد نظر آئے اور اس کے لیے اصول اور ضابطے کا بازو مروڑنا ممکن ہو وہ اکثر صورتوں میں ایسا کر گزرتا ہے۔
ہم زور آوروں سے رضاکارانہ طور پر سیدھا ہونے کی زیادہ توقع نہیں کر سکتے۔ انہیں بتدریج لیکن بہت سست روی سے گزرتا وقت اور بدلتے حالات قانون کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کریں گے۔ لیکن اس کو فوری طور پر یقینی بنانے کے لیے عدالتیں ہوتی ہیں۔
عدالتوں کی کیفیت جو ہے اس بنا پر ان سے یہ امید وابستہ کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ایک عام شہری کے مذکورہ بالا 14 نکات کافی عرصہ جواب طلب ہی رہیں گے۔