Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Wazir e Taleem Ka Faisla Aur Taleemi Zawal Ke Asbab

Wazir e Taleem Ka Faisla Aur Taleemi Zawal Ke Asbab

وزیر تعلیم کا فیصلہ اور تعلیمی زوال کے اسباب

یقین کیجیے، یہ خبر پڑھ کر بہت عجیب محسوس ہوا کہ وزیرِ تعلیم پنجاب نے کلاس نہم کے خراب نتائج پر اساتذہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بظاہر یہ اقدام خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارروائی مرض کی جڑ پر وار کرے گی یا محض سطح کو کھرچنے کی مشق ثابت ہوگی؟ کیا یہ سزا ان ہزاروں بچوں کے مستقبل کو بہتر بنا پائے گی جو نہم میں فیل ہو کر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں؟ ہمارے وزیر صاحب بھی کنویں میں سے مردہ کتا نکالنے کے بجائے پانی کی بالٹیاں نکالنے کا قصد کئے بیٹھے ہیں۔

حیرت یہ ہے کہ ہم ہر بار علامت پر ضرب لگاتے ہیں، سبب کو چھیڑے بغیر۔ جیسے کسی عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں اور مالک دیوار پر رنگ و روغن کرکے سمجھ لے کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے آجکل محکمہ تعلیم کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے۔ آئیے پہلے ان خراب نتائج کی وجوہات پر بات کر لیتے ہیں۔

اساتذہ کی قلت کا المیہ

نو سال سے سرکاری سکولوں میں ایک بھی استاد بھرتی نہیں ہوا۔ بہت سے سکول ایسے ہیں جہاں دس کلاسیں ہیں لیکن استاد صرف پانچ۔ ایک استاد صبح ریاضی پڑھاتا ہے، پھر سائنس، پھر اسلامیات اور دوپہر کو ہیڈ ماسٹر بن کر فائلوں کے ڈھیر میں دب جاتا ہے۔ ایسے میں نتائج بہتر کیسے ہوں؟ کیا استاد جادوگر ہے کہ لمحوں میں خالی کلاس روم کو علم سے بھر دے؟

مار نہیں پیار، مگر کس قیمت پر؟

ہم نے "مار نہیں پیار" کا نعرہ تو بلند کر دیا، لیکن اس کے ساتھ نظم و ضبط کا کوئی متبادل نظام نہ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں کے ذہنوں میں تعلیم کی سنجیدگی ختم ہوگئی۔ آج کا طالب علم استاد کی ڈانٹ کو اپنی انا پر حملہ سمجھتا ہے اور سبق یاد نہ کرنے کو کوئی جرم نہیں مانتا۔ یہ پالیسی بچوں کو نہیں، پورے تعلیمی نظام کو برباد کر رہی ہے۔ بچے یہ جان گئے ہیں کہ پڑھیں یا نہ پڑھیں، اگلی جماعت میں جانا طے ہے اور استاد بے بسی کے ساتھ کتاب کے اوراق پلٹتا رہتا ہے۔

بنیاد کی کمزوری اور چھت کا بوجھ

پہلی سے آٹھویں جماعت تک پاس-فیل کا خاتمہ بچوں کو سہولت نہیں، دھوکا دیتا ہے۔ بنیاد ہی کمزور رکھی جاتی ہے اور پھر میٹرک کا بوجھ اس بنیاد پر رکھ دیا جاتا ہے جو لمحوں میں دھڑام سے گر جاتی ہے۔

میٹرک کے بورڈ امتحان میں وہی بچہ بیٹھا ہوتا ہے جس نے پہلی آٹھ جماعتوں میں محنت کا ذائقہ تک نہیں چکھا۔ ایسے میں جب نتیجے میں ناکامی ملتی ہے تو استاد کو قصوروار ٹھہرا دینا سب سے آسان کام ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت کہیں زیادہ تلخ اور پیچیدہ ہے۔

سہولیات کا فقدان

کئی سکول ایسے ہیں جہاں نہ ڈیسک ہیں، نہ فنکشنل پنکھے، نہ بیت الخلاء، کیونکہ وہاں پورے کلاس روم ہی نہیں ہیں۔ کبھی شدید سردی اور شدید گرمی میں جا کر ان اساتذہ اور بچوں کی حالت دیکھیں۔ بعض عمارتیں ایسی ہیں کہ بارش ہو تو استاد اور بچے ایک ہی چھت کے نیچے پناہ مانگتے ہیں کہ شاید یہ لمحہ بھی گزر جائے۔ کیا یہ وہ ماحول ہے جہاں سے ایک روشن مستقبل کی کرن پھوٹ سکتی ہے؟

تعطیلات کا مسئلہ۔

تعلیمی اداروں میں کبھی گرمیوں کی تعطیلات تو کبھی سردیوں کی تعطیلات چلیں یہ تو روٹین ہے مگر ہر بار گرمیوں کی تعطیلات میں بوجہ شدید گرمی جبکہ سردیوں کی تعطیلات میں بوجہ شدید سردی اضافہ اب سالہا سال سے ایک روٹین بن چکی ہے۔ اب تو کئی سال سے سموگ کی چھٹیاں اور پھر دینگی کی چھٹیاں بھی کر دی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سلیبس مکمل ہو ہی نہیں پاتا۔ جو لوگ یہ جواز گھڑتے ہیں کہ گرما سرما کی تعطیلات تو پہلے بھی ہوتی تھیں انکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اس وقت سلیبس آج کی نسبت تقریباً آدھا ہوتا تھا اور دوسرا یہ کہ اس وقت اساتذہ کو ہر روز فائلوں کا پیٹ بھرنا نہیں پڑتا تھا جیسا کہ اب ہے۔

استاد کو استاد رہنے دیجیے

ہمارا استاد تدریس سے زیادہ دفتر داری میں مصروف ہے۔ ڈاک وصول کرنی ہے، مردم شماری کرنی ہے، ڈینگی کی تصویریں بھیجنی ہیں، انتخابی ڈیوٹی کرنی ہے اور اوپر سے ہفتے میں تین نوٹسز بھرنے ہیں۔ جو استاد کاغذی کام میں جکڑا ہو وہ کلاس میں علم بانٹے گا یا نیند پوری کرے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک متوازی نظام بنایا جائے جو تعلیمی اداروں کے انتظامی کام سنبھالے اور استاد کو صرف پڑھانے کا موقع دے۔

حل کہاں ہے؟

اگر ہم واقعی نتائج بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں چند بنیادی اقدامات اٹھانا ہوں گے:

فوری طور پر خالی اسامیوں پر اساتذہ کی بھرتی

پاس-فیل پالیسی کا پہلی جماعت سے دوبارہ نفاذ

اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں سے نجات

انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی

تعلیمی نظم و ضبط کا ایسا نظام جو بچوں میں سنجیدگی پیدا کرے۔

چیک اینڈ بیلنس کے فرسودہ سسٹم کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اپنائیں۔ جس طرح ایم ای اے ماہانہ سکول وزٹ کرتے ہیں اسی طرح ہفتہ وار وزٹ کیلئے قابل اور مکمل ٹرینڈ سٹاف رکھیں۔ بےشک ایم ای ایز کی تعداد بڑھا دیں اور ہر سکول مہینے میں چار بار وزٹ ہو اور ہر کلاس پر چیک اینڈ بیلنس ہو اور سکول کے سہ ماہی، ششماہی اور پھر سالانہ امتحانات ان ایم ای ایز کے ماتحت ہی رکھیں۔

یہ قومیں یونہی عروج پر نہیں پہنچتیں، انہیں علم کی بنیاد پر تعمیر کیا جاتا ہے۔ آج ہمارے سکولوں میں علم نہیں، محض اعداد و شمار کی دوڑ لگی ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ سکول میں داخلہ ہی تعلیم کا دوسرا نام ہے، حکومت سمجھتی ہے کہ نوٹیفکیشن ہی اصلاحات ہیں اور استاد بے بسی میں صرف اپنی حاضری پوری کرتا رہتا ہے۔

قومیں تب ہی بنتی ہیں جب استاد کو عزت ملے، نظام کو سنجیدگی سے سمجھا جائے اور اصلاح کو محض کاغذی کارروائی نہ بنایا جائے۔ ورنہ آنے والے برسوں میں نہ صرف نتائج گرتے رہیں گے بلکہ ہماری نسلیں بھی علم کے میدان سے باہر ہوتی جائیں گی اور ہم یونہی سوال کرتے رہیں گے: آخر ہم دنیا میں پیچھے کیوں رہ گئے؟

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali