Vagina Ki Tala Bandi
ویجائنا کی تالہ بندی
کل سے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی ایک تحریر پر بہت بات ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ ہمیشہ اچھوتے موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں جن پر عام طور پر دیگر لکھاری قلم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض اوقات بہت عجیب بات کر جاتی ہے ایک بار انکی ایک تحریر سے میں نے ناصرف شدید اختلاف کیا تھا بلکہ اسکے اختلاف میں دلائل کیساتھ ایک تحریر بھی لکھی تھی۔
یار لوگ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو فیمنسٹ کہتے ہیں حالانکہ میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ اسلام نے خواتیں کو جتنے حقوق دئیے ہیں اتنے فیمنسٹ کمیونٹی نے آج تک مانگے ہی نہیں ہیں۔ میری دانست میں ہر وہ شخص فیمنسٹ ہے جو بھی اسلام کی روح کو سمجھتا ہے۔ خیر اس موضوع کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
اپنی مذکورہ تحریر میں ڈاکٹر صاحبہ فرماتی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں لڑکی کے جوان ہوتے ہی انکی اندام نہانی یعنی ویجائنا کو مقفل کر دیا جاتا ہے۔ مقفل کرنے کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پہلے ویجائنا کی دونوں موٹی سائیڈیں جن کو لیبیا کہا جاتا ہے ان میں دونوں جانب سوراخ کئے جاتے ہیں پھر انھیں تالہ لگا دیا جاتا ہے جس کی چابی اس لڑکی کے شوہر کی جیب میں ہوتی ہے۔ شوہر کو جب ضرورت ہوتی ہے تالہ کھولتا ہے استفادہ کرنے کے بعد تالہ لگا دیتا ہے۔
میرے لئے یہ بہت عجیب بات ہے جو میں نے کبھی پہلے نہیں سنا تھا۔ اس تحریر سے مجھ سمیت بہت سے دوستوں کو اختلاف ہے۔ آج میں نے جب انباکس کھولا تو میرے ایک گائنی کالوجسٹ دوست نے مجھے بتایا کہ ہمارے تجربات میں کچھ کیس ایسے آئے تھے کہ جہاں ہم نے بچشم خود دیکھا کہ ویجائنا کے اردگرد مقفل کرنے کے نشانات موجود تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر فیاض بلوچ کی رائے میں بھی انکی ایک گائنی کالوجسٹ کولیگ نے انھیں بتایا ہے کہ اس نے ایسے کچھ کیسز دیکھے ہیں۔
بات یہی تک رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے ساتھ ایک لکھاری دوست عرصہ دراز سے ایڈ ہیں۔ اکثر ہمارا اختلاف بھی رہتا ہے مگر بہترین، نفیس اور دھیمے انسان ہیں۔ انھوں نے بہت بھاری دل کیساتھ اپنا ذاتی تجربہ شئیر کیا جسے پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایسے ایک واقعے کا گواہ ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مکمل بات نہیں لکھی۔ حقیقت اس سے بھی زیادہ گھناؤنی اور کرب ناک ہے۔ یہ تالا ان لڑکیوں کو لگایا جاتا تھا جنھیں بھاری قیمت پر بعدازاں بیچا جاتا۔ تالا چاندی اور بعض اوقات سونے کا ہوا کرتا تاکہ عورت کے جسم میں انفیکشن نہ ہو۔ خریدار عورت کے ساتھ ساتھ تالے کی قیمت بھی ادا کرنے کا پابند ہوتا تھا۔ اس تالے کا نام انتہائی نازیبا ہے اس لیے یہاں نہیں لکھ رہا۔ واقعہ میرے نانا ابو کے ساتھ پیش آیا جن کی لو اسٹوری تب انھوں نے اپنی ایک آپ بیتی میں ادھوری چھوڑ دی تھی۔ میری نانی کا تعلق ایسے ہی ایریا سے تھا اور وہ گاؤں آج بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی بات نہ تو اتنی سادہ ہے کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے اور نہ ہی اتنی پائیدار ہے کہ اس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لایا جائے۔ یہ موضوع دراصل مزید بحث کا متقاضی ہے جس پر اہل قلم حضرات کو مزید کھوجنا ہوگا تاکہ طاہرہ کی بات کو یا تو کُلی طور پر رد کیا جائے اور یا اس کو کُلی طور پر تسلیم کیا جائے۔ بہرحال اگر بالفرض ڈاکٹر طاہرہ کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ محض چند واقعات ہوئے ہونگے مگر اسے جواز بنا کر پورے ملک یا پوری قوم یا کسی مخصوص علاقے کو رگید دینا کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔