Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Umar Farooq, Sarapa Adal o Waqar

Umar Farooq, Sarapa Adal o Waqar

عمرِ فاروقؓ، سراپا عدل و وقار

مدینہ کی فضا میں ایک خاموشی سی چھا گئی تھی۔ منبرِ نبوی ﷺ کا وہ عاشق جو کبھی قریش کی تلوار کا غرور تھا، آج محرابِ مسجد میں سجدے کی حالت میں خنجرِ ستم کا شکار ہو چکا تھا۔ محرابِ عدل خون سے تر تھی اور زمین لرز رہی تھی۔ یہ حضرت عمر فاروقؓ کا یومِ شہادت تھا۔

حضرت عمرؓ کا ذکر ہو اور آنکھ نم نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ وہ جن کی شخصیت پتھر دل سرداروں کو لرزا دیتی، وہ جن کی ہیبت سے شیطان بھی راستہ بدل لیتا، وہ عمرؓ جنہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا"۔ (ترمذی)

اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت عمرؓ، قریش کے ان سرداروں میں سے تھے جن کا نام بھی مکہ کی گلیوں میں گونجتا تو دشمن لرز جایا کرتے۔ عمرؓ نے اسلام کو مٹانے کی ٹھانی مگر دل کی دیواریں قرآن کی آیات سے ایسا ہلیں کہ ایک لمحے میں بغاوت سے بندگی تک کا سفر طے ہوگیا۔ سورہ طٰہٰ کی آیات، بہن کا خون آلود چہرہ اور ضمیر کی تڑپ نے وہ انقلاب برپا کیا جو تاریخِ روحانیت کا نادر ترین لمحہ ہے۔

قبولِ اسلام کے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کعبہ میں اعلانیہ نماز پڑھی۔ جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی صفوں میں جان آ گئی اور جنہیں "فاروق" کا لقب ملا یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا۔

غزوات میں وہ صفِ اول کے سپاہی تھے۔ خیبر، خندق، تبوک۔۔ ہر معرکے میں عمرؓ کی تلوار وہ صدا تھی جو نعرۂ توحید کی گونج میں ڈھلتی تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے شانہ بشانہ، میدانوں میں وہ شیر دکھائی دیتے جو دشمن کے دل میں خدا کا خوف اتار دیتے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد جب خلافت کا بوجھ حضرت عمرؓ کے کندھوں پر رکھا گیا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کہا کرتے تھے: "اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے باز پُرس ہوگی"۔ فاروقِ اعظمؓ کے عشرۂ خلافت میں سلطنتِ اسلامیہ نے ایک نئی جہت اختیار کی۔ ایران، شام، مصر، عراق اور بیت المقدس سب حضرت عمرؓ کے عدل، تدبر اور لشکری حکمتِ عملی کے گواہ بنے۔

وہ خلیفہ جو راتوں کو گلیوں میں چادر اوڑھے پھرے کہ کہیں کوئی بھوکا نہ سو رہا ہو۔ جو قحط کے دنوں میں خود روٹی اور گھی سے پرہیز کرے تاکہ رعایا کے دُکھ میں شریک رہے۔

حضرت عمرؓ نے قاضی کا منصب قائم کیا، پولیس نظام وضع کیا، بیت المال قائم کیا، فوجی رجسٹریشن، ڈاک نظام، سڑکیں، پل، نہریں اور تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ ان کے وضع کردہ انتظامی ڈھانچے کو بعد کی اسلامی حکومتوں نے بھی اپنایا۔

حضرت عمرؓ کا رعب دشمنوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری کرتا۔ جب بیت المقدس کی چابیاں پیش کی گئیں تو رومی پادریوں نے کہا:

"ہم نے تمہارے خلیفہ کی نشانیاں کتابوں میں دیکھی ہیں، ہم صرف عمر کو چابیاں دیں گے"۔

اور جب عمرؓ اونٹ پر بیٹھے، خادم کو سواری دی اور خود ننگے پاؤں بیت المقدس پہنچے تو اہلِ شہر نے کہا: "یہی وہ عادل بادشاہ ہے جس کا ذکر ہمارے صحیفوں میں ہے"۔

26 ذوالحج 24 ہجری، فجر کی نماز، سجدہ جاری تھا اور ایک غلام۔۔ فیروز۔۔ خنجر لے کر آیا۔ وار کیے، مسجد میں صفیں ٹوٹ گئیں، دل رو پڑے۔ لیکن عمرؓ نے وہیں لیٹے لیٹے فرمایا:

"صفیں سیدھی کرو۔۔ نماز مکمل کرو۔۔ اسلام قائم رہے"۔

حضرت عمرؓ نے زخموں کی حالت میں وصیت کی:

"میری قبر کو میرے محبوب محمد ﷺ کے پہلو میں جگہ دینا، اگر اجازت ہو"۔

آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 3 دن بعد، یکم محرم الحرام 24 ہجری کو شہید ہوئے۔

جب نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے درمیان خاک میں فاروقؓ ابدی نیند سو گئے تو گویا تاریخ نے اپنے سب سے عظیم خلیفہ کو سلام کیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر قول، ہر عمل، ہر فیصلہ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ وہ نہ صرف اسلام کے خادم تھے بلکہ پوری انسانیت کے خیرخواہ تھے۔ آج جب دنیا عدل، امن، نظم، دیانت اور اصولوں کے بحران سے گزر رہی ہے فاروقِ اعظمؓ کی زندگی ایک مینارِ نور بن کر ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔

عمرؓ مر نہیں سکتے۔۔

وہ تاریخ میں نہیں۔۔ ہمارے دل میں زندہ ہیں۔

Check Also

Bache Aisa Kyun Karte Hain?

By Qurratulain Shoaib