Taqat Ka Sarchashma Kon
طاقت کا سرچشمہ کون
وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی عدالتی فیصلے کے وقت جناب فرحت اللہ بابر کا ایک ٹویٹ نظر سے گزرا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پارلیمنٹ عوامی طاقت اور اختیار رکھنے والا عوامی نمائندوں کا ادارہ ہے اور سپریم ہے۔ تمام تر قانون سازی اور آئین سازی پارلیمنٹ کے اندر ہوتی ہے تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں توازن پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اب آرٹیکل 191 پر نظرثانی کی جائے۔
فرحت اللہ بابر کی تجویز بہترین ہے ہم تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ نظام انصاف میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر معذرت کیساتھ فرحت اللہ بابر صاحب نے جن اصلاحات کی جانب اشارہ کیا ہے ان میں مجھے کچھ تشنگی لگی۔
فرحت اللہ بابر صاحب دست بدستہ عرض ہے کہ آپ لوگ اپنے مسائل اپنے ایوان میں ہی کیوں نہیں حل کرتے؟ آپ کو کون کہتا ہے کہ بات بات پر آپ اپنی فائلیں پکڑ کر عدالت کو کہیں کہ یہ مسئلہ حل کر دیں؟ آپ کو کون کہتا ہے کہ آپ اپنے مسائل اٹھا کر عدالت جائیں اور درخواست دیں۔ آپ گیپ چھوڑتے ہی کیوں ہیں؟ جب سیاستدان خود اپنا کام کرنے کے اہل نہیں ہیں تو وہ گیپ آخر کسی نے تو پُر کرنا ہے۔
گستاخی معاف میرا فرحت اللہ بابر اور انکے ہم خیال حضرات سے سوال ہے کہ یہ تجویز انھیں آج ہی کیوں سوجھی اس سے پہلے اس طرح انھوں نے ٹویٹ یا کوئی قرار داد کیوں پیش نہ کی۔ دوسرا یہ کہ پارلیمنٹ ایک عوامی ادارہ ہے مگر کیا کبھی اس نے عوامی مفادات کو بھی مقدم رکھا ہے بلکہ معذرت کیساتھ انھوں نے تو عوامی مفادات کو پس پشت بھی کبھی نہیں رکھا بلکہ بہت دور پھینک رکھا ہے تاکہ انکی بھنک بھی ان تک نہ پڑے۔
یہ عوامی نمائندے اپنے بجٹ منظور کروانے میں تو چند منٹ کی دیر نہیں کرتے مگر کیا اس عوامی ادارے نے اپنے عوام کی اکثریت جو کہ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں انکے گھر کا بجٹ بھی دیکھا ہے کہ وہ کیسے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
یہ عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں میں تو یک بارگی ہی سو فیصد اضافہ بھی کر لیتے ہیں مگر کیا انھوں نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ پچیس ہزار روپے ماہانہ سے کیسے بجٹ بنتا ہے۔ تین ماہ قبل انھی نمائندوں نے عوام کی مشکلات دیکھتے ہوئے اقتدار سنبھالا مگر سوائے نیب سے اپنے کیسز معاف کروانے کی قانون سازی کرنے کے انھوں نے کیا کیا ہے۔
فرحت اللہ بابر صاحب میرا عاجزانہ سا سوال ہے کہ کیا آپ انھی نمائندوں کو بااختیار بنانے کی بات کر رہے ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جنہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا ووٹ بیچنے کیلئے منڈی میں اپنی بولیاں لگائیں اور لگوائیں اور کروڑوں روپے کا مال بنا کر عوامی مینڈیٹ کا بلات کار کیا۔ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ اس پر قانون سازی کرنے کیلئے بھی ایک ٹویٹ کرتے اور ایوان میں ایک بل ہی پیش کردیتے۔
فرحت اللہ بابر صاحب عوامی نمائندوں کا کام اپنی غریب عوام کی حالت کو بدل کر انھیں بہتر بنانا ہوتا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندے اپنی حالت تو بدل لیتے ہیں مگر عوام کے مقدر میں فاقے ہی رہ جاتے ہیں۔
یہی عوامی نمائندے ہیں جن پر ستر سال سے عوام کے ٹیکس کا اربوں روپے سالانہ خرچ ہو رہا ہے مگر کیا انھوں نے کبھی یہ جسٹیفائی کرنے کی زحمت کی کہ ہم نے اس کے عوض عوام کو یہ کچھ دیا ہے؟ فرحت اللہ بابر صاحب دست بدستہ سوال ہے کہ عوام میں کیوں یہ تاثر پنپ رہا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام سے عوامی فلاح کی توقع رکھنا کسی خواجہ سرا سے اولاد کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔
فرحت اللہ بابر صاحب کیوں ناں عدالتی اصلاحات کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی اصلاحات بھی کر لی جائیں۔ مجھے یار پڑتا ہے کہ چند برس قبل الیکشن کمیشن کے رکن کے تقرری کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ گیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے اراکین اسمبلی سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ آپ ایسے معاملات عدالت لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کیوں نہیں کر لیتے۔ یہ کہہ کر انھوں نے کیس خارج کر دیا اور کہا جائیں اور مل بیٹھ کر معاملہ حل کیجئے۔
اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اپنی پارلیمنٹ کی اصلاح بھی کر لی جائے۔ لہذا کیوں ناں اب ایوان کی تشکیل نو پر بھی بحث کر لی جائے اور ملک میں ایک نیا سیاسی نظام لایا جائے جو درست معنوں میں عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہو۔ اپنی ترجیحات میں کہیں تو عام عوام کو شامل کر لیجئے بھلے آخر پر ہی کیوں نہ ہو۔