Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Sindh Taas Muahiday Ki Khilaf Warzi

Sindh Taas Muahiday Ki Khilaf Warzi

سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی

یہ جنگ تلواروں یا ٹینکوں سے نہیں لڑی جائے گی۔ نہ اس میں بارود کی بو ہوگی، نہ دھوئیں کے بادل۔ یہ جنگ خاموش ہوگی، لیکن اس کے نتائج صدیوں تک سرزمینوں، فصلوں اور نسلوں میں محسوس کیے جائیں گے۔ یہ جنگ پانی کی ہوگی۔ وہی پانی جو زندگی ہے، جو تہذیبوں کا ماخذ ہے، جو زمین کے سینے پر بہتے ہوئے انسان کو زندہ رکھتا ہے اور اگر یہ رُک جائے، تو صرف ندیاں نہیں، بستیاں بھی مر جاتی ہیں۔

پاکستان کے لیے پانی کوئی سادہ قدرتی وسیلہ نہیں، یہ اس کی شہ رگ ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا صدیوں سے وادیِ سندھ کی تمدنی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے آئے ہیں۔ لیکن اب یہ دریا صرف جغرافیہ نہیں، سیاست اور بقا کا سوال بن چکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی روح کے خلاف ڈیموں کی بھرمار اور پانی کے بہاؤ میں چالاکی سے کی جانے والی تبدیلیاں، محض ہائیڈروپاور پراجیکٹس نہیں، یہ درحقیقت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ایک خطرناک حکمتِ عملی ہے۔

حال ہی میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے جو کچھ کہا، وہ محض ایک تنبیہہ نہیں بلکہ پانی کے معاملے پر پاکستان کی حساسیت اور سنجیدگی کا غماز ہے۔ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا یہ کہنا کہ "اگر پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ " آج انھوں نے یہ بیان دیا: "اگر بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو تمام چھ دریا پاکستان کے ہوں گے" یہ دراصل ایک ایسی گھنٹی ہے جس کی آواز سرحدوں سے پار سنائی دے رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدے کو بائی پاس کرکے، ڈیم پر ڈیم بنائے اور پاکستان کے پانی کو اپنی مرضی سے روکنے یا موڑنے کی پالیسی پر گامزن ہو؟ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں دونوں ممالک کے مابین عالمی ضمانتوں کے ساتھ طے پایا تھا۔ یہ واحد مثال ہے جب دو دشمن ملکوں نے اپنے آبی تنازع کو مذاکرات سے سلجھایا مگر آج اسی معاہدے کی روح کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کو ابھی تک عالمی سطح پر جارح سفارتی پالیسی کے ساتھ اس مسئلے کو نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے سیاست دان ابھی تک اس پر بھرپور اور مؤثر طریقے سے آواز نہیں اٹھا رہے۔ بھارت اپنے بیانیے کے تحت دنیا کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ پانی ذخیرہ کر رہا ہے، روک نہیں رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب پانی کا قدرتی بہاؤ مصنوعی طریقوں سے بدلا جائے گا تو کیا یہ بربادی کا آغاز نہیں ہوگا؟ کسان کے کھیت، مزدور کی روٹی، شہری کے نلکے، حتیٰ کہ فوجی کے مورچے، سب پانی کے محتاج ہیں اور جب یہ پانی دشمن کی انگلیوں میں قید ہو تو پھر دفاع صرف سرحدوں پر نہیں، سفارت کاری، تحقیق، عدالتوں اور عالمی فورمز پر بھی کرنا پڑتا ہے۔

یہ خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر بھارت اپنی روش پر قائم رہا اور پاکستان مسلسل دباؤ میں آتا رہا تو یہ تنازع محض قانونی اور سفارتی سطح پر محدود نہیں رہے گا۔ پانی کی قلت پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے ایک وجودی بحران بن سکتی ہے اور ایسی صورتحال میں جنگ کا امکان محض مفروضہ نہیں، ایک تلخ امکان بن جاتا ہے اور جنگ۔۔ وہ اگر ایک بار شروع ہو جائے تو وہ پانی پر ہو یا زمین پر، جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان پانی کے معاملے پر قومی سطح پر بیداری مہم چلائے۔ سفارتی محاذ پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرے اور ساتھ ساتھ اپنے داخلی آبی ذخائر اور مینجمنٹ کو بھی بہتر بنائے۔ کیونکہ اگر ہم صرف بھارت کو کوستے رہے اور خود اندر سے کمزور رہے، تو ناقابل تلافی نقصان پر دہائیوں کی بجائے، صدیوں تک پچھتانا پڑے گا۔

یاد رکھیں، پانی کا بحران وہ خنجر ہے جو اگر خاموشی سے چلتا رہا تو نہ صرف ہماری زمین سیراب ہونے سے محروم ہوگی، بلکہ ہمارے بچوں کا مستقبل بھی خشک کنووں میں دفن ہو جائے گا۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم وقت پر آواز اٹھاتے ہیں، یا پھر آنے والی نسلوں کے گلے خشک پیاس سے چٹخنے کے بعد ماتم کرتے ہیں۔

Check Also

Bache Aisa Kyun Karte Hain?

By Qurratulain Shoaib