Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Sindh Taas Muahida Muattali Aur Pakistan Ke Pas Options

Sindh Taas Muahida Muattali Aur Pakistan Ke Pas Options

سندھ طاس معاہدہ معطلی اور پاکستان کے پاس آپشنز

جب 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا تو بظاہر یہ ایک آبی مسئلے کا حل تھا، مگر درحقیقت یہ دو نظریاتی ریاستوں کے درمیان ایک عبوری مفاہمت تھی۔ یہ معاہدہ نہ تو دوستی کی بنیاد پر طے پایا تھا اور نہ ہی کسی دیرپا اعتماد کا مظہر تھا، بلکہ یہ مغربی دباؤ، امریکی ثالثی اور عالمی بینک کی ٹیکنیکل ثالثی کا امتزاج تھا، جس نے دو دشمن ممالک کو ایک کمزور مگر قابلِ عمل سمجھوتے پر راضی کیا۔ اس سمجھوتے نے پاکستان کو مغربی تین دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اور بھارت کو مشرقی تین دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول دیا لیکن کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ۔

آج جب بھارت نے بار بار سندھ طاس معاہدے کی شقوں کو توڑ کر آبی جارحیت کی راہ اختیار کی ہے، پاکستان کی جانب سے پہلی بار اصولی اور جارحانہ مؤقف سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو پھر اس معاہدے کی موجودگی کا جواز بھی باقی نہیں رہتا اور اگر معاہدہ ختم ہو چکا ہے، تو عالمی قانون کے مطابق 6 میں سے 3 مشرقی دریاؤں پر بھی پاکستان کا مشترکہ حق تسلیم ہونا چاہیے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار، کشن گنگا، رتلے جیسے درجنوں منصوبے مکمل یا زیرِ تعمیر رکھے۔ پاکستان کی بارہا شکایات کے باوجود بھارت کی جانب سے غیرجانبدار ماہرین کی رائے ماننے سے انکار، ثالثی عدالت میں جانے کی راہ مسدود کرنا اور اب سندھ طاس معاہدے سے خود ہی پیچھے ہٹ جانا۔ یہ سب کچھ ایک خاموش مگر نہایت خطرناک آبی جنگ کا تسلسل ہے۔

بھارت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ صرف "رَن آف دی ریور" منصوبے بنا رہا ہے، جو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں۔ لیکن عالمی بینک کی ٹیکنیکل رپورٹس، پاکستان کی تکنیکی ماہرین کی رپورٹس اور نیوٹرل ایکسپرٹس کی بعض آرا یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بھارت نے پانی کے بہاؤ کو متاثر کرکے پاکستان کے زرعی انفراسٹرکچر اور ماحولیاتی توازن کو نقصان پہنچایا ہے۔

اب اگر واقعی بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کر چکا ہے جس کے آثار بھارت کی UN سیکرٹری جنرل کو حالیہ شکایت اور یکطرفہ اقدامات سے واضح ہیں تو بین الاقوامی آبی قوانین (جیسے Helsinki Rules 1966, UN Watercourses Convention 1997) کے تحت دونوں ممالک کے دریا ایک "بین الملکی پانی" (transboundary water) کے زمرے میں آتے ہیں اور ان پر دونوں فریقوں کا مساوی حق تصور کیا جاتا ہے۔

یہاں ایک بنیادی نکتہ قابلِ توجہ ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کے بعد پاکستان کو صرف دفاعی پوزیشن میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے سفارتی، قانونی اور حتیٰ کہ عسکری سطح پر بھی جارحانہ سفارت کاری کرنی چاہیے۔ بھارت کی جانب سے ستلج پر بنایا گیا بھاکڑا ننگل ڈیم اور راوی پر تھین اور ماجھی پور جیسے پروجیکٹس، اگر معاہدہ کالعدم ہوگیا ہے تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان کے ساتھ شراکت کے دائرے میں آتے ہیں۔

یقینا پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور اسے طاقت کے استعمال کی بات انتہائی نپی تلی حکمتِ عملی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ لیکن بھارت کی جانب سے اگر آبی جارحیت جاری رہی، تو پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے "حقِ دفاع" کو بروئے کار لائے جس میں پانی جیسے قومی بقاء کے مسئلے پر بھرپور ردعمل بھی شامل ہو سکتا ہے۔

تاہم اصل میدان سفارت کاری کا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک، OIC، SAARC اور دیگر عالمی فورمز پر ایک جامع آبی پالیسی لے کر جائے۔ تکنیکی ماہرین، ماحولیاتی اداروں اور غیر جانبدار تھنک ٹینکس کی مدد سے بھارت کی آبی خلاف ورزیوں کی ڈاکیومنٹیشن تیار کی جائے۔ پاکستان کی آبی کمیشن کو ایک مضبوط قانونی بازو مہیا کیا جائے، جو عالمی عدالتِ انصاف تک رسائی کا حق رکھتا ہو۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو محض ایک "معاہدہ ختم ہوگیا" تک محدود نہ رکھے، بلکہ اسے اپنے قومی مفاد، زرعی معیشت اور ماحولیاتی بقاء کے تناظر میں دیکھے۔ بھارت کا رویہ اب تک "اعتماد" کے قابل نہیں رہا۔ لہٰذا نئی آبی پالیسی میں پرانی شرائط نہیں، نئے تقاضے اور مضبوط مؤقف ہونا چاہیے۔

یہ وقت ہے جب ہمیں سفارتی میز پر، قانونی جنگ میں اور رائے عامہ کے محاذ پر ایک ساتھ لڑنا ہوگا کیونکہ آنے والی جنگیں شاید تیل یا بارود کی نہیں، پانی کی ہوں گی۔ اگر پانی چھن گیا، تو زندگی صرف ایک سراب بن کر رہ جائے گی۔

Check Also

Drop Site News, Ki Aik Aham Magar Ghair Musadaqa Khabar

By Nusrat Javed