Shadeed Garmi Aur School Tateelat
شدید گرمی اور سکول تعطیلات
حالیہ گرمی کی شدید لہر کو دیکھتے ہوئے شنید ہے کہ پنجاب بھر کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات 22 مئی سے شروع کر دی جائیں گی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ گرمی بہت شدید ہے بچوں کیلئے سکول آنا بہت مشکل ہے مگر دوسری طرف تعطیلات کے نام پر پڑھائی سے اتنا لمبا بریک بھی کوئی درست فیصلہ معلوم نہیں ہوتا۔
آپ یہ اندازہ لگائیں کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں بچے گھر بیٹھ جائیں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سارا دن دھوپ میں آوارہ گردی کرتے ہیں آگے آم اور جامن کے سیزن میں پورا مہینہ سارا سارا دن گھر نہیں آتے۔ کچھ غریب والدین تو بچوں کو گرمی کے موسم میں بھی لیبر پر رکھوا دیتے ہیں کہ چلو چار پیسے کما لیں۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ سکول بچے کیلئے گرمی سے بچاؤ کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہے بچہ نہ صرف سکول میں مصروف رہتا ہے بلکہ گھر آ کر ہوم ورک بھی اسے کسی حد تک مصروف کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر بچوں کو گرمی سے بچاو کیلئے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تو مجھے کسی صورت درست معلوم نہیں ہوتا۔ مجھے گزشتہ شب تین چار سرکاری اساتذہ سے بات کرکے یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ گرما کی تعطیلات کو وہ بھی مناسب نہیں سمجھ رہے۔
اب گرمیاں ہیں گرمیوں کے بعد بارشیں شروع ہو جائیگی۔ پھر سموگ کی چھٹیاں آ جائیں گی اس کے بعد دسمبر کی چھٹیاں سردی کی شدت کے باعث بڑھا دی جائیں گی۔ پورے تعلیمی سال کا ستیاناس ہو جاتا ہے بچے اپنا سلیبس مکمل کر ہی نہیں پاتے کیونکہ پورا تعلیمی سال انکی روٹین ہی نہیں بن سکتی۔ ہمارے بچوں کی تعلیمی قابلیت پہلے ہی سب کو معلوم ہے۔
دیکھیں اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں کلایمیٹ چینج کے اثرات بھی ہیں۔ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہی دانشمندی ہے۔ ڈھائی ماہ کی تعطیلات کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔ تمام سکولوں کے اوقات کار صبح چھ بجے سے دس بجے تک کر دئیے جائیں اس وقت موسم بالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ بہت جلدی ہو جاتا ہے بھئی لوگوں کو یہ ترغیب دیں کہ دنیا اب دن رات سے نہیں چلتی بلکہ اب راؤنڈ دی کلاک چلتی ہے ویسے بھی صبح چھ بجے تو اچھا خاصا دن چڑھ چکا ہوتا ہے۔ یہ عذر لنگ ہے کہ آنا مشکل ہے وغیرہ وغیرہ۔ انھی اوقات کار کو پورے سیزن میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ درمیان میں دس پندرہ دن کی چھٹیاں کر دی جائیں تاکہ تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل کم سے کم آئے۔
دوسری تشویشناک ناک خبر سنگل ٹیچر اور کم تعداد والے سرکاری سکولوں کی پرائیویٹائزیشن بارے سن رہے ہیں یہ فیصلہ بھی تعلیمی نظام کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا انشاءاللہ اگلی تحریر اسی موضوع پر ہوگی۔ یہ ایک تنقیدی تحریر ہرگز نہیں ہوگی بلکہ اس میں ٹارگٹ سکولوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے تجاویز دی جائیں گی۔ ہمارے وزیر تعلیم پنجاب ایک مثبت انسان ہیں۔ سنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی آراء کو بہت تواتر سے پڑھتے ہیں اور قابلِ عمل تجاویز پر عمل بھی کرتے ہیں۔