Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Seerat e Mustafa Ke Moti (1)

Seerat e Mustafa Ke Moti (1)

سیرت مصطفیٰ ﷺ کے موتی (1)

مکّہ کی وادیاں اُس رات عجیب سکوت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ حرا کی پہاڑیاں اپنی پرانی خاموشی میں مگن تھیں اور قریش کے قافلے حسبِ معمول کعبہ کے گرد اپنے بتوں کے سائے میں سوئے ہوئے تھے۔ مگر ان سب کے بیچ ایک عجیب بےچینی تھی جیسے فضا کے ذرے کسی انجان تبدیلی کے منتظر ہوں، جیسے کعبہ کی سیاہ چادر کے نیچے دھڑکتا دل کسی غیر معمولی لمحے کی آہٹ سن رہا ہو۔

وہ دور جاہلیت کا دور تھا۔ ظلم کی حکمرانی، صنم پرستی کی اندھی تقلید اور کمزوروں کی بے بسی کا عہد۔ یتیم بچوں کے آنسو دھول میں گم ہو جاتے، غلاموں کی آہیں آسمان تک پہنچ کر بھی واپس لوٹ آتیں اور عورت کو زندہ دفن کرنا عزت کی علامت سمجھا جاتا۔ لیکن اس اندھیرے میں بھی روشنی کا ایک ننھا چراغ روشن ہونے والا تھا، ایک ایسی کرن جو صدیوں کے اندھیروں کو چیر کر کائنات کو منور کرنے والی تھی۔

سردار عبدالمطلب اُس رات بھی کعبہ کے صحن میں بیحد متفکر بیٹھے تھے۔ دل میں بیٹے عبداللہ کی وفات کا غم لئے جو شادی کے چند ماہ بعد ہی تجارت کے سفر پر گئے اور وہیں بیمار ہو کر رب کے حضور پیش ہو گئے جبکہ اس وقت آقاؑ شکم مادر میں تھے۔ عمر کی جھریاں عبدالمطلب کے چہرے پر تھی مگر اس رات آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی جھلملاتی تھی۔ کچھ دنوں سے طبیعت میں عجب بےچینی تھی۔ ایسی کیفیت شاید اس وجہ سے تھی کہ ایک عظیم مہمان انکے گھر آنے والا تھا، ایک بچہ جس کی پیشانی سے نور کی کرنیں نکلیں گی اور جس کے قدموں سے ظلم کے ایوان لرز اُٹھیں گے۔ اس رات عبدالمطلب کے دل میں ایک عجیب سا سکون اُتر جاتا جیسے فطرت خود اُنہیں یقین دلا رہی ہو کہ عبدالمطلب کے خاندان میں جنم لینے والا بچہ زمانے کی تقدیر بدلنے آیا ہے۔

دوسری طرف سیدہ آمنہ کی آنکھوں میں بھی ایک عجیب سی چمک تھی۔ اُن کے خواب رنگ بدلنے لگے تھے۔ ایک رات وہ خواب دیکھتیں کہ جیسے ایک نورانی ہستی انھیں بشارت دے رہی ہو کہ "اے آمنہ! تم عورتوں میں سب سے زیادہ بابرکت ہونے والی ہو، تمہارے بطن میں ایک ایسا نور ہے جو کائنات کو جگمگانے والا ہے۔ جب وہ دنیا میں آئے گا تو وہ سب کی تعریف کا حق دار ہوگا"۔

اور پھر وہ گھڑی بھی آن پہنچی جس کا انتظار صرف حضرت آمنہ اور عبدالمطلب ہی نہیں، زمین اور آسمان کا ہر ذَرّہ کر رہا تھا۔ رات کی خاموشی میں مکّہ کے آسمان پر ایک انوکھا منظر ابھرا۔ ستارے معمول سے زیادہ روشن تھے جیسے زمین کے مقدر پر رشک کر رہے ہوں۔ وہ رات عجیب تھی، ہوائیں خوشبو سے مہک رہی تھیں، درختوں کی ٹہنیاں جھوم رہی تھیں اور آسمان کی وسعتوں میں روشنیوں کا ہالہ سا پھیل گیا تھا۔ سیدہ آمنہ اس وقت ابوطالب کے گھر تشریف فرما تھیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی والدہ شفا حضرت آمنہ کی دایا کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔

بعض روایات کے مطابق 9 ربیع الاول جبکہ بعض کے مطابق 12 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 صبح صادق کے وقت جب سیدہ آمنہ کے بطن مبارک سے وہ ننھا سا وجود دنیا میں آیا تو کائنات جیسے جشن میں ڈوب گئی۔ کہا جاتا ہے کہ فارس کے آتش کدے جو ہزار برس سے روشن تھے، بجھ گئے۔ کسریٰ کے محل کی چودہ بلند و بالا محرابیں لرز کر گر گئیں اور بحیرہ ساوہ خشک ہوگیا۔ یہ محض اتفاق نہ تھا، یہ صدیوں کی غلامی کے خاتمے اور حق کی فتح کی پیش گوئی تھی۔

یہ سب محض اتفاق نہیں تھا، یہ اُس اعلان کی تمہید تھی جو قرآن نے بعد میں یوں فرمایا: ﴿وَمَا أَرُسَلُنَاكَ إِلَّا رَحُمَةً لِّلُعَالَمِينَ﴾ (الانبیاء: 107)

"ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔

روایت ہے کہ پیدائش کے وقت آپ ﷺ نے اپنی نگاہیں مبارک آسمان کی طرف اُٹھائیں جیسے ازل سے طے شدہ وعدے کو یاد دلا رہے ہوں۔ اُمّ ایمنؓ کہتی ہیں کہ اُس رات میں نے ایسا نور دیکھا جو مکّہ کی حدود سے نکل کر دور آسمان تک پھیل گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: ﴿لَقَدُ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الُمُؤُمِنِينَ إِذُ بَعَثَ فِيهِمُ رَسُولًا مِّنُ أَنفُسِهِمُ﴾ (آل عمران: 164)

"یقیناً اللہ نے اہلِ ایمان پر بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا"۔

پیدائش کی خبر پھیلتے ہی سردار عبدالمطلبؓ کے چہرے پر خوشی کے دیپ جل اُٹھے۔ عبدالمطلب نے جب پہلی بار اُس بچے کو اپنی آغوش میں لیا تو اُن کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ وہ ننھی سی پیشانی کو چومتے ہوئے فوراً کعبہ کی جانب لے کر گئے اور شکر ادا کیا۔ نوزائیدہ آقا ﷺ کو دیکھتے ہی اُنہوں نے کہا:

"یہ میرا پوتا ہے، میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے، تاکہ زمین و آسمان والے اس کی تعریف کریں"۔

گھر کے ہر کونے میں برکت اُتر آئی تھی۔ بستی کی جو خواتین دیکھنے آتیں وہ ننھے بچے کو گود میں اٹھا اٹھا کر پیار کرتیں۔ یہ سب اُنہیں حیران کر رہا تھا مگر وہ جانتی نہ تھیں کہ اُن کے بازوؤں میں وہ بچہ ہے جس کے قدموں کے نیچے زمین کے ذرے بھی متبرک ہونے لگیں گے۔

مکّہ کے سردار اور اہلِ قریش شاید یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ عام بچہ نہیں ہے۔ وہ اُس ننھی پیشانی پر جھلملاتے نور کو محض ایک خوبصورت اتفاق سمجھتے رہے مگر کعبہ کی دیواریں یہ راز جانتی تھیں۔ حجرِ اسود کی سیاہ چمک کے پیچھے ایک عجیب سی روشنی جاگ اٹھی تھی۔ حرم کی خاموش دیواریں سن رہی تھیں کہ آنے والے دنوں میں یہی ننھا بچہ اس گھر کو پاک کرے گا، بتوں کو گرا دے گا اور توحید کی صدا آسمان و زمین میں بلند کرے گا۔

قریش کے قبیلے خوابوں میں گم تھے جبکہ مکہ کی فضاؤں میں وہ مہک بسی ہوئی تھی جو صدیوں کے اندھیروں کو چیرنے آئی تھی۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ گزشتہ کل کا سورج ایک نئی تاریخ لے کر طلوع ہوا تھا لیکن کعبہ کی دیواریں جانتی تھیں۔ وہ خاموش دیواریں جو پتھروں سے بنی تھیں مگر ایمان کے رازوں کو سمیٹے بیٹھی تھیں، محسوس کر رہی تھیں کہ کسی انقلاب کے قدموں کی چاپ قریب آ رہی ہے۔ ایک ایسا انقلاب جو صدیوں کی غلامی کو مٹا کر انسان کو عزت اور حق کی روشنی دینے والا تھا۔

"وہ آ گیا ہے، جو اندھیروں کو روشنی میں بدل دے گا، جو دلوں کو زندہ کرے گا، جو انسانیت کو انسانیت کا شعور دے گا"۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali