Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Safaid Poshi Ka Karb

Safaid Poshi Ka Karb

سفید پوشی کا کرب

سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ ایک شخص رات کے پچھلے پہر قاضی کی عدالت میں حاضر ہوا۔ قاضی صاحب نے حیرت سے پوچھا: "اس وقت کس کام کے لیے آئے ہو؟"۔ وہ شخص بولا: "عدل کے طالب دن کے اجالے میں دربار میں جاتے ہیں، مگر میں اپنی عزت کے لیے اندھیری رات کا سہارا لے کر آیا ہوں"۔ قاضی نے سوال کیا: "مسئلہ کیا ہے؟" اس نے کہا: "بھوک ہے، فاقہ ہے، مگر سوال زبان پر نہیں لا سکتا۔ اپنی سفید پوشی ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی، سو انصاف کی دہائی دینے آیا ہوں"۔ قاضی صاحب کی آنکھیں بھر آئیں اور اسی وقت بیت المال سے اس کے لیے راشن کا حکم دیا۔

یہ واقعہ صدیوں پرانا ہے، مگر آج بھی ہمارے گلی کوچوں میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو سفید پوشی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کپڑے صاف ستھرے ہوتے ہیں، بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور گھر کا دروازہ بھی ہمیشہ باوقار انداز میں کھلتا ہے، مگر اندر غربت کا ایسا کہرام برپا ہے جس کی صدا کوئی نہیں سنتا۔

یہ خاندان کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ وہ اپنی عزت کو سوال سے بڑا سمجھتے ہیں، لیکن حالات ان کی خودداری کا روز امتحان لیتے ہیں۔ بجلی کا بل ہاتھ میں پکڑے وہ سوچتے ہیں کہ یہ مہینے کی تنخواہ کا کون سا حصہ کھا جائے گا۔ دوائی کی پرچی دیکھتے ہیں تو دل کانپ جاتا ہے کہ دوا خریدیں یا بچوں کیلئے دودھ۔ اسکول کی فیس پر نظریں جمتی ہیں تو چہرہ پسینے سے بھر جاتا ہے اور پھر مہینے کے آخری دن، جب تنخواہ ختم ہو جاتی ہے اور جیب میں کچھ باقی نہیں بچتا، اس وقت یہ خاندان اندر ہی اندر ٹوٹ جاتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی اپنے دکھ زبان پر نہیں لاتے۔ وہ کسی کے دروازے پر نہیں جاتے، کسی سیاستدان کے ہاتھ نہیں پکڑتے، کسی خیرات کے دفتر کی قطار میں نہیں کھڑے ہوتے۔ ان کے پاس صبر ہے، عزت ہے اور خاموشی ہے۔ لیکن ان کے بچے اپنے والد کے چہرے پر دن بدن بڑھتی فکر کی لکیریں دیکھتے ہیں۔ بیوی رات کو حساب لگاتے ہوئے سوچتی ہے کہ آٹا کم کر دوں، سالن میں پانی زیادہ ڈال دوں، یا بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی خواہش کو پھر ایک سال کے لیے ٹال دوں۔

المیہ یہ ہے کہ یہ سفید پوش طبقہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ چھوٹے سرکاری ملازم ہیں، اسکولوں کے اساتذہ ہیں، کلرک ہیں، ڈرائیور ہیں، سیلز مین ہیں، یا کسی پرائیویٹ کمپنی کے عام ورکر۔ یہ اپنی ایمانداری اور خاموش محنت سے سارا نظام چلا رہے ہیں۔ مگر ریاست اور معاشرہ ان کی تکلیف کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ ہم نے ان کے لیے کوئی سہارا نہیں رکھا۔

ان کی اذیت اس شخص کی اذیت سے کہیں زیادہ ہے جو کھلے عام مانگ لیتا ہے۔ بھکاری اپنی غربت کا ڈھنڈورا پیٹ کر پیٹ بھر لیتا ہے مگر سفید پوش اپنی عزت کے بوجھ تلے بھوکا سوتا ہے۔ اس کا دکھ یہ ہے کہ وہ زندہ بھی ہے اور مردہ بھی۔

سوال یہ ہے کہ ہم کب ان پوشیدہ زخموں پر مرہم رکھیں گے؟ کب ہم ایسے نظام کی بنیاد ڈالیں گے جس میں سفید پوش بھی سانس لے سکیں؟ یہ لوگ نہ تو احتجاج کرتے ہیں، نہ دھرنے دیتے ہیں، نہ سڑکیں بند کرتے ہیں، اس لیے ان کی آہیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔ مگر یہی وہ طبقہ ہے جس کی خاموشی ایک دن ہمارے سماج کو اندر سے کھوکھلا کر دے گی۔

یاد رکھیے، بھوک جب صبر کا لباس اتار پھینکتی ہے تو وہ سب کچھ جلا دیتی ہے اور اگر ہم نے ان عزت دار مگر مجبور لوگوں کے دکھ نہ سنے تو آنے والے دنوں میں یہ سفید پوشی کا کرب ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہوگا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari