Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Riyasti Baqa Ke Liye Muttahid Hona Hoga

Riyasti Baqa Ke Liye Muttahid Hona Hoga

ریاستی بقا کے لیے متحد ہونا ہوگا

ملک کی سیاست کسی ناول کی طرح ہے جہاں کردار، حالات اور فیصلے ہر موڑ پر قاری کو چونکا دیتے ہیں مگر عمران خان کا سیاسی سفر شاید اس ناول کا سب سے متنازع مگر دلچسپ باب ہے۔ وہ باب جو کبھی مزاحمت کی جھنکار میں گونجتا ہے، کبھی انقلابی نعرے لگاتا ہے اور اب شاید مفاہمت کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔

بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کی گزشتہ روز ملاقات میں عمران خان نے جو کچھ کہا وہ ایک نئے بیانیے کی بازگشت ہے۔ بادی النظر میں یہ وہی مؤقف ہے جسے وہ برسوں سے دہراتے آئے ہیں۔

عمران خان نے ایک بار پھر بھارت اور نریندر مودی کے ممکنہ حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ علاقائی خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام، قومی یکجہتی اور عسکری اداروں کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔ اگرچہ ان کا یہ بیان بظاہر ایک مفاہمانہ اپروچ ہے، مگر اس کے سطور میں چھپا پیغام بڑا واضح ہے: "ہمیں سیاسی دشمنی سے اوپر اٹھ کر، ریاستی بقا کے لیے متحد ہونا ہوگا"۔ 

یہ مؤقف سیاسی اختلاف سے زیادہ ریاستی ذمے داری کا عکس دیتا ہے یا کم از کم وہ یہی تاثر دینا چاہتے ہیں۔

تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ 1965ء کی جنگ ہو یا سانحہ سنہ 1971، پاکستان ہمیشہ اس وقت کمزور ہوا جب اندرونی محاذ غیر مستحکم تھا۔ ایوب خان کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سیاسی تصادم نے قوم کو تقسیم کیا جب کہ دشمن سرحد پر تیار کھڑا تھا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں 1971ء میں سیاسی قوتوں کی ضدوں نے ملک کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھی اگرچہ دیگر فیکٹرز بعد میں پیدا ہوئے۔

عمران خان جیسے کرشماتی، مگر سخت مؤقف رکھنے والے رہنما کی طرف سے اس وقت مصالحت کا عندیہ آنا، سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہو سکتا ہے بشرطیکہ یہ صرف وقتی حکمتِ عملی نہ ہو، بلکہ کسی سنجیدہ قومی بیانیے کی شروعات ہو۔

یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ عمران خان کا یہ مؤقف ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب خود ان کی جماعت انتشار، گرفتاریوں اور عدالتی کارروائیوں کا شکار ہے۔ وہ سڑکوں کی سیاست سے بند کمروں کی سیاست کی طرف آ رہے ہیں شاید یہ وقت، تجربے اور دباؤ کا مجموعی نتیجہ ہو۔

لیکن کیا اس بار اسٹیبلشمنٹ اُن کی آواز پر کان دھرے گی؟

کیا فریقین کے ہاتھ میں مفاہمت کا زیتون واقعی ہے؟ یا یہ صرف سیاسی تنہائی سے بچنے کی ایک تدبیر ہے؟

عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات محض ریاستی اداروں سے نہیں بلکہ عوامی نمائندوں، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے بھی ہونے چاہئیں۔ اگر وہ واقعی مفاہمت کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود ان دروازوں کے پیچھے کھڑے "سیاسی مخالفین" کو انسان سمجھنا ہوگا۔

اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیاستدانوں نے وقتی اقتدار کے بجائے دیرپا استحکام کا انتخاب کیا، قوم نے سکون کا سانس لیا۔ اگر عمران خان واقعی بھارت جیسے دشمن کے خطرے کو سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے سیاست میں دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ دشمن باہر ہے، اندر نہیں۔

یہ کالم لکھتے ہوئے ایک پرانا منظر ذہن میں آ رہا ہے: 2008ء، جب نواز شریف اور آصف علی زرداری نے "چارٹر آف ڈیموکریسی" پر عملدرآمد کی کوشش کی۔ اُس وقت عدلیہ بحالی تحریک تھی، مہنگائی تھی، دہشتگردی تھی مگر دونوں نے مفاہمت کی راہ اپنائی۔ شاید اب وہی وقت پھر لوٹ آیا ہے، بس کردار بدل گئے ہیں۔

سوال صرف اتنا ہے:

کیا عمران خان سیاست کے اس نئے موڑ پر وہ بصیرت دکھا سکیں گے جو لیڈر اور انقلابی میں فرق کرتی ہے؟

کیونکہ تاریخ یہ ضرور یاد رکھتی ہے کہ ناراضیاں تو سیاست کا حصہ ہوتی ہیں مگر قومی سلامتی کے وقت ہاتھ بڑھانا یہی اصل سیاستدان کی پہچان ہوتی ہے۔

Check Also

Haye Qayamat, Chaye Laao Zara, Bohat Be Hayai Hai

By Cyma Malik