Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (9)
رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (9)

مکہ کی رات تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی لیکن اس سکوت کے پیچھے ایک طوفان چھپا تھا۔ قریش کے سردار دارالندوہ میں جمع تھے۔۔ چہرے غصے سے سرخ، آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں۔ طے پایا کہ "محمد ﷺ کو نعوذبااللہ ختم کر دو، تاکہ یہ دعوت ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے"۔ ہر قبیلے کا ایک نوجوان تلوار تھامے گا اور اجتماعی وار سے یہ آواز ہمیشہ کے لیے دبا دی جائے گی لہٰذا قریش کے ہر قبیلے کے جوان خنجر بدست میرے آقا نبی خدا محمد رسول اللہ ﷺ کے دروازے کے باہر گھات لگائے بیٹھے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ طلوعِ صبح سے پہلے اس آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے جو ان کے بتوں اور باطل کو چیلنج کر رہی تھی۔
لیکن تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جسے رب العالمین نے منتخب کیا ہو، اُسے دنیا کی کوئی سازش نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ رات کے آخری پہر میں محمد ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک پر چادر ڈالی اور علیؓ کو حکم دیا کہ ان کے بستر پر لیٹ جائیں۔ علیؓ نے لمحہ بھر کو بھی تردد نہ کیا، نہ سوچا اور نہ ہی کوئی مشورہ کیا، جیسے وہ پہلے سے ہی تیار ہوں اور ان کے لیے جان قربان کرنا کوئی بڑی بات نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ کے محبوب ﷺ نے آیاتِ ربانی تلاوت کیں اور قریش کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے، مگر کسی کو کچھ نظر نہ آیا۔ یہ اللہ کی حفاظت تھی جو اپنے محبوب ﷺ کے ساتھ تھی۔
﴿وَجَعَلُنَا مِن بَيُنِ أَيُدِيهِمُ سَدًّا وَمِنُ خَلُفِهِمُ سَدًّا فَأَغُشَيُنَاهُمُ فَهُمُ لَا يُبُصِرُونَ﴾
"اور ہم نے اُن کے آگے بھی ایک دیوار کر دی اور پیچھے بھی، پھر اُن پر پردہ ڈال دیا، سو وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے"۔ (یس: 9)
بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی خدا حضرت محمد مصطفیٰ نے ایک مٹھی میں مٹی اٹھا کر اللہ کا نام لے کر مشرکین کی جانب اچھال دی اور اللہ کے حکم سے انکی آنکھوں کے آگے دھند چھا گئی۔
مدینہ کی طرف ہجرت کا سفر شروع ہوا۔ راستے میں ایک مخلص رفیق ساتھ تھا۔۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، جو اپنے محبوب نبی ﷺ کی ایک آہ پر بھی تڑپ جاتے تھے۔ دشمن قدم بہ قدم تعاقب کر رہے تھے۔ میرے آقاؑ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ شہر سے نکل کر سخت پتھریلے راستوں سے گزرتے ہوئے غارِ ثور تک پہنچے۔ غار کے تنگ دہانے میں داخل ہوتے ہوئے ابوبکرؓ نے ایک لمحے کو دل تھام لیا۔۔ اگر دشمنوں نے تلاش کر لیا تو؟ لیکن میرے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر سکون کی ایک روشنی تھی۔
تین دن وہاں چھپے رہے۔ باہر قریش کے نوجوان تلواریں سونتے پھر رہے تھے، یہاں تک کہ ایک لمحے کو دشمن غار کے دہانے تک آگیا۔ ابو بکرؓ نے کانپتے لہجے میں کہا:
"یا رسول اللہ ﷺ! اگر وہ نیچے دیکھ لے تو ہمیں دیکھ لے گا!"
محمد ﷺ نے مسکراتے ہوئے کہا: "اے ابو بکرؓ! غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔
﴿إِذُ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحُزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾
"جب اُس نے اپنے ساتھی سے کہا: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ (التوبہ: 40)
یہ وہ یقین تھا جس نے خوف کو پگھلا دیا اور ایمان کو فولاد بنا دیا۔ دشمن پلٹ گئے۔ اللہ نے اپنے دوستوں کے لیے حفاظت کا ایسا حصار قائم کر دیا کہ عقلیں حیران رہ جائیں۔ میرے اللہ کے حکم سے غار کے دھانے پر ایک مکڑی نے جال بُنا، ایک کبوتر نے انڈے دے دیے۔۔ گویا قدرت نے دشمنان دین کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا کہ "یہاں عرصہ سے کوئی نہیں آیا"۔
چند دنوں بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ریگستان کی تپتی ریت پر چلتے، کبھی تیز دھوپ اور کبھی ٹھنڈی راتوں میں خاموشی سے آگے بڑھتے، یہ قافلہ بالآخر مدینہ کی حدود میں داخل ہوا۔
مدینہ والوں کے دل اس انتظار میں تڑپ رہے تھے۔ بچے چھتوں پر چڑھ کر دور سے آنے والے قافلے کو دیکھتے، عورتیں خوشی کے گیت گنگناتیں اور مرد بے تابی سے دروازوں پر کھڑے رہتے۔ یہ سب جمال رسول ﷺ کا دیدار کرنے کیلئے بےتاب تھے۔ پھر وہ لمحہ آیا جب سورج کی روشنی میں چمکتا چہرہ نظر آیا۔۔ محمد ﷺ کا چہرہ۔۔ گویا چاند زمین پر اتر آیا ہو اور فضا میں ایک ہی نعرہ گونج اٹھا:
"طَلَعَ البَدُرُ عَلَیُنَا"۔۔
یہ کوئی عام استقبال نہ تھا، یہ محبت کا ایسا بے مثال نظارہ تھا جس نے زمین کو جنت اور دلوں کو محراب بنا دیا تھا۔ وہ لمحہ تاریخ کے اوراق میں ایسا ثبت ہوا کہ قیامت تک وفا اور عقیدت کے چراغ جلاتا رہے گا۔ کوئی کہتا: "یا رسول اللہ ﷺ، ہمارے گھر میں رہئے!"، کوئی کہتا: "یہ جگہ آپ کے لیے بہترین ہے!" لیکن نبی رحمت ﷺ نے اونٹنی کی مہار کو آزاد چھوڑ دیا۔ وہ جہاں جا کر بیٹھی، وہی جگہ مسجدِ نبوی کی بنیاد بنی۔۔ ایسی مسجد جو دنیا بھر کے ایمان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بن گئی۔
مدینہ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کا ایسا رشتہ قائم کیا گیا جو تاریخ میں مثال بن گیا۔ ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ کو انصار کے گھروں میں بھائیوں کی طرح جگہ دی گئی۔ انصار نے اپنے باغات اور کھیت مہاجرین کے ساتھ بانٹ دیے اور مہاجرین نے محنت اور صبر کے ساتھ نئے شہر کو اپنا گھر بنا لیا۔
قرآن نے اسی روح کو یوں بیان کیا: ﴿إِنَّمَا الُمُؤُمِنُونَ إِخُوَةٌ فَأَصُلِحُوا بَيُنَ أَخَوَيُكُمُ﴾
"بیشک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو"۔ (الحجرات: 10)
یہی وہ معاشرہ تھا جہاں عدل، محبت اور قربانی کی بنیاد پر اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔ قرآن کی آیات مدینہ کی فضاؤں میں گونجتیں اور مسجد نبوی کے صحن میں ایمان کی محفلیں سجتیں۔
ادھر مدینہ میں اسلام کی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں جبکہ دوسری طرف مکہ میں کفار کے ایوانوں کے اندر خوف اور انتقام کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ مکہ کے سردار چین سے کیسے بیٹھ سکتے تھے۔ ان کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ اب ایک قوت میں بدل رہا ہے۔ وہ سازشوں میں مصروف رہے اور قریش کے قافلے شام اور مدینہ کے درمیان کے راستوں سے گزرتے ہوئے غیر محفوظ ہونے لگے۔
مسلمانوں کو بھی معلوم تھا کہ اب ان کی آزادی اور دین کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن معرکہ ناگزیر ہے۔ تلواریں ابھی نیام میں تھیں، لیکن دلوں میں ایک عزم جنم لے رہا تھا۔
مدینہ کی فضاؤں میں پہلی اسلامی ریاست کا پرچم لہرا رہا تھا اور افق پر جنگِ بدر کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔۔ ایک ایسی جنگ جو حق اور باطل کے درمیان پہلا عظیم معرکہ ثابت ہونے والی تھی۔ رات کے سائے مدینہ پر چھا رہے تھے، لیکن ان سائے کے پیچھے ایک نیا سورج طلوع ہونے کو تھا۔۔ ایسا سورج جو ایمان کے لشکر کو نصرت کا یقین دلانے والا تھا۔
قریش اپنی تلواریں تیز کر رہے تھے اور مدینہ کی سرزمین پر بدر کی ہوا چلنے لگی تھی۔

