Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (8)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (8)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (8)

مکہ کی رات ایک عجیب سکوت میں لپٹی ہوئی تھی۔ آسمان کے ستارے چمک رہے تھے جیسے کسی غیر معمولی راز سے واقف ہوں۔ کعبہ کے سائے میں محمد ﷺ دعا میں مصروف تھے۔۔ دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کے حضور، امت کے دکھ اور صبر کے شکوے بغیر شکوے کے، محبت کے لہجے میں۔

اسی خاموش رات میں جب دنیا کی آنکھ سو رہی تھی، کائنات کے دروازے کھل گئے۔ رب کعبہ کی اپنے محبوب کو آسمانوں کی سیر کروانے کا وقت آن پہنچا تھا۔ آسمان کائنات کی عظیم ترین ہستی کا استقبال کرنے کو بےچین تھا۔ جبرائیلؑ آئے اور نبی کریم پر سلام بھیجنے کے بعد نہایت ادب سے عرض کیا:

"اے پیغمبر خدا محمد الرسول اللہ ﷺ! آئیے، آپ کو وہ سفر دکھایا جائے جو کسی بشر نے آج تک نہیں دیکھا!"

جی ہاں یہ واقعہ آسرا و معراج تھا۔ نبیؑ کو بنفس نفیس آسمانوں پر لیجایا گیا احادیث سے واقعہ معراج بنفس نفیس ہی ثابت ہے۔ یہ سفر نبی پاک ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔

براق حاضر کیا گیا۔۔ ایک ایسا نورانی جانور جس کا قدم جہاں پڑتا، نگاہ کی انتہا تک پہنچ جاتا۔ رسولِ رحمت ﷺ نے بسم اللہ کہا اور وہ سفر شروع ہوا جو تاریخ کا سب سے عظیم سفر کہلایا۔

مکہ سے بیت المقدس تک کا راستہ لمحوں میں طے ہوا۔ انبیاء علیہم السلام کے قافلے نے سید الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا استقبال کیا۔ وہاں سید الانبیاء ﷺ نے سب کی امامت کی، جیسے سب نے گواہی دے دی کہ اب قیادت کا تاج محمد ﷺ کے سر پر سجا ہے۔

پھر وہ لمحہ آیا جب آسمانوں کی طرف بلندی کا سفر شروع ہوا۔ پہلا آسمان، دوسرا، تیسرا، ہر آسمان پر سلام پیش کیا اور ہر سلام میں اسی بات کا مظہر تھا کہ "آپ ہی وہ محبوب ہیں جن کے نور سے زمین اور آسمان روشن ہیں"۔

ساتویں آسمان کے پار، سدرة المنتہیٰ کا منظر ایسا تھا کہ انسانی نگاہ وہاں ٹکنے کی طاقت نہ رکھتی تھی۔۔ نور کے دریا، رحمت کے سمندر اور رب کے قرب کی وہ کیفیت جسے لفظوں میں باندھنا ممکن نہیں۔ وہاں، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو نماز کا تحفہ عطا فرمایا۔۔ امت کے لیے قربِ الٰہی کا راستہ۔

واپسی پر مکہ کے لوگ ہنسے، طعنے دیے، کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ مگر ابوبکرؓ نے صرف ایک جملہ کہا:

"اگر یہ محمد ﷺ کا فرمان ہے تو یقیناً سچ ہے"۔

اور اسی دن وہ صدیق کہلائے۔

یہ معراج، محض ایک معجزہ نہیں تھا، یہ ایمان والوں کے لیے امید کا چراغ تھی۔۔ کہ مصیبتوں اور تنہائی کے باوجود رب کا وعدہ قریب ہے۔

مدینہ کی ہوا میں امید کا پیغام

مکہ میں زمین تنگ ہو رہی تھی، لیکن یثرب۔۔ جو بعد میں مدینہ کہلایا۔۔ کے دل کھل رہے تھے۔ حج کے ایام میں مدینہ کے چند لوگ آئے اور دارِ ارقم میں قرآن سنا۔ دل کانپ گئے اور زبانوں نے بے اختیار کہا:

"یہی حق ہے اور یہی وہ نبی ہیں جن کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے"۔

پہلی بیعتِ عقبہ ہوئی اور یثرب کی مٹی میں ایمان کا پہلا بیج بویا گیا۔ اگلے سال، دوسری بیعتِ عقبہ میں مدینہ کے قافلے نے ایک مضبوط عہد باندھا:

"اے اللہ کے رسول ﷺ! آئیے، ہمارے گھروں میں رہیے، ہم آپ کی حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں!"

یہ وعدہ محض الفاظ نہیں تھے۔ یہ ایک نئے دور کی بنیاد تھی۔ مکہ کی تنگ گلیوں میں ستائے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں پہلی بار روشنی کی کرن جاگی۔ ایک ایسا شہر ان کا منتظر تھا جو انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹنے والا تھا۔

لیکن مکہ کے سردار بھی غافل نہیں تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ محمد ﷺ کا پیغام قریش کی دیواروں سے نکل کر مدینہ کی فضاؤں میں جا رہا ہے۔ ان کے اقتدار اور غرور کو خطرہ لاحق تھا۔ دارالندوہ میں خفیہ اجلاس ہوئے۔ ایک آواز کہتی تھی کہ محمد کو قید کر دو، دوسری کہتی تھی کہ جلاوطن کر دو اور آخر میں ایک شیطانی تجویز نے سب کو قائل کر لیا:

"ہر قبیلے کا ایک جوان ایک ساتھ حملہ کرے، تاکہ کسی ایک قبیلے پر خون کا الزام نہ آئے!"

رات کے اندھیروں میں یہ منصوبہ تیار ہو رہا تھا اور اسی رات محمد ﷺ اپنے رب کے حکم سے ہجرت کی تیاری کر رہے تھے۔ علیؓ ان کے بستر پر لیٹ گئے، جان کو خطرے میں ڈال کر بھی محبت اور وفا کا علم بلند کیے۔

اب ہجرت کا سفر شروع ہونے والا تھا۔۔ ایسا سفر جو کفر کے ایوانوں کو ہلا دے گا اور ایمان کی بنیادوں کو مضبوط کرے گا۔

مکہ کی گلیوں میں خاموشی تھی، لیکن اس خاموشی کے پیچھے طوفان کا شور چھپا ہوا تھا۔ قریش کے منصوبے گہرے سائے کی طرح پھیل رہے تھے، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ منصوبے نہیں، تقدیر کے دھاگے بن رہے ہیں۔۔ ایسی تقدیر جو مدینہ کی زمین پر اسلام کی پہلی ریاست کو جنم دے گی۔

آسمان پر ستارے دمک رہے تھے جیسے ربِ کائنات بھی اپنے محبوب کے اس عظیم سفر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔

قریش کی سازش کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور مدینہ کی فضاؤں میں نصرت کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam