Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (7)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (7)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (7)

شعبِ ابی طالب کا محاصرہ اور طائف کی تنہائی مکہ کی وادی نے جیسے ظلم کا کفن اوڑھ لیا تھا۔ قریش نے طے کر لیا تھا کہ محمد ﷺ اور ان کے ماننے والوں کو مٹا دینا ہے۔۔ چاہے بھوک سے، پیاس سے یا تذلیل سے۔ شعبِ ابی طالب کی وہ تنگ و تاریک گھاٹی، جہاں نہ سبزہ تھا نہ پانی، اب مسلمانوں کی پناہ گاہ بن چکی تھی۔

تین سال، تین طویل اور کربناک سال۔ بھوک کا ایسا زہر جو بچوں کے ہونٹوں کو نیلا کر دیتا اور پیاس کی وہ شدت کہ حلق خشک لکڑی کی مانند چیختا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی خشک چمڑے کا ٹکڑا جلا کر، نرم کرکے کھاتے، تاکہ معدے کو دھوکا دیا جا سکے۔ مائیں اپنے لاغر بچوں کو گود میں سلاتیں تو ان کے ہونٹوں پر دودھ کی جگہ خشک آہیں ہوتی تھیں۔

رات کے سناٹے میں، کبھی کبھی کعبے کی طرف سے قریش کے قہقہے سنائی دیتے، جو ان مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے۔ مگر ان آہوں اور چیخوں کے بیچ، ایک دل ایسا تھا جو کبھی کمزور نہ ہوا۔ محمد ﷺ ہر رات رب سے سرگوشی کرتے: "اے میرے رب! یہ تنگی تیری رضا کے سوا کچھ نہیں، لیکن تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا نور اندھیروں کو شکست دے گا"۔

آخر وہ دن بھی آیا جب مکہ کے کچھ نرم دل انسانوں کو یہ ظلم سہنا گوارا نہ رہا۔ محاصرہ ختم ہوا، مگر زخم باقی رہے۔۔ نبی کریم کی دکھ درد کی ساتھی خدیجہؓ کا کمزور جسم، ابو طالب کی تھکی ہڈیوں کا بوجھ اور صحابہؓ کے رُخساروں پر لکیریں جو بھوک نے کھینچی تھیں، سب اس کہانی کی گواہی دیتے تھے۔

لیکن آزمائش کا سلسلہ یہیں نہ رکا۔ چند ہی دنوں میں حضور کے چچا ابو طالب اور نبی کی غمگسار حضرت خدیجہؓ، دونوں ہی، اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

وہ سال، ہاں، وہ سال جو تاریخِ نبوت میں"عامُ الحزن" یعنی غم کا سال کہلایا، ایسا زخم چھوڑ گیا جو وقت کے دامن میں بھی کبھی مکمل مندمل نہ ہو سکا۔

خدیجہؓ، وہ ہستی جو ہر اندھیرے میں چراغ بن کر ساتھ کھڑی رہتی تھیں، ہر طوفان میں نبیِ کریم ﷺ کے لیے پناہ گاہ بن جاتی تھیں، ہر طعنہ اور ہر پتھر کے مقابل حوصلے کا پہاڑ بن جاتی تھیں۔ وہی خدیجہؓ، جو سب سے پہلے ایمان لائیں، جنہوں نے دولت، عزت، محبت، سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر دیا، جن کے گھر میں آ کر وحی کی لرزتی کیفیات سکون میں بدل جاتیں، جن کی گود میں سر رکھ کر آپ ﷺ تھکن بھول جاتے، وہ خدیجہؓ جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو نبیِ رحمت ﷺ کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا چھوٹ گیا۔

خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے دل کا ایک حصہ جیسے خاموش ہوگیا۔ وہ مسکراہٹ جو ہمیشہ دوسروں کو حوصلہ دیتی تھی، اب گہری اداسی میں ڈوبی رہتی۔ مکہ کی گلیاں وہی تھیں، لوگ بھی وہی تھے، مگر اب ان گلیوں میں آپ ﷺ کے قدم اور زیادہ تنہا محسوس ہوتے تھے۔ ہر وہ گوشہ جہاں کبھی خدیجہؓ کی موجودگی سے سکون آتا تھا، اب ایک خالی پن کی اذیت سے گونجتا تھا۔

اور دوسری جانب، جیسے اس غم کو مزید گہرا کرنے کے لیے، وہ ہستی بھی دنیا سے رخصت ہوگئی جو مکہ کے کافروں کے ظلم و ستم کے سامنے ایک ڈھال بنی رہی تھی۔ ابو طالب۔۔ وہ چچا جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو اپنی جان سے بڑھ کر تحفظ دیا، ہر مجلس میں ان کا دفاع کیا اور قریش کے ہر دباؤ کو برداشت کیا۔ جب وہ دنیا سے گئے، تو گویا مکہ کے سنگ دل دشمنوں کو کوئی روکنے والا نہ رہا۔

مگر ان سب کرب کے باوجود آپ ﷺ کے دل میں شکوہ نہ تھا، صرف دعا تھی، صرف رب سے امید تھی۔ رحمت دو جہاں حضرت محمد ﷺ پر یکے بعد دیگرے ان عظیم سانحات نے غموں کے پہاڑ توڑ دئیے تھے۔ مکہ کی گلیاں، جو پہلے ہی دشمنی سے بھری تھیں، اب آقا سیدنا محمد ﷺ کے لیے اور بھی تنگ ہوگئیں۔ وہ تنہا ہو گئے، مگر ان کی نگاہ میں تنہائی نہیں، اپنے رب کی قربت تھی۔

اسی امید کے سہارے وہ طائف کی طرف نکلے۔۔ شاید وہاں کے دل نرم ہو جائیں، شاید وہاں کے لوگ حق کی آواز سن لیں۔ طائف کا سفر سخت تھا، مگر اس سے بھی زیادہ کٹھن وہ مناظر تھے جو وہاں دیکھنے کو ملے۔ سرداروں نے بات تک سننے سے انکار کر دیا۔ الٹا بچے اور اوباش، رحمت دو عالم ﷺ کے پیچھے لگا دیے گئے۔ پتھروں کی بارش ہوئی، جسم لہولہان ہوگیا، نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔۔ قدم مبارک لڑکھڑائے مگر ہونٹوں سے کوئی بددعا نہ نکلی۔

شدید تکلیف کے عالم میں آپ ﷺ طائف سے نکل آئے اور قریب واقع انگوروں کے ایک باغ عتبہ و شینہ بن ربیعہ کے ایک گوشے میں جا کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔

کچھ روایات میں ملتا ہے کہ اسی باغ میں عتبہ اور شیبہ نے، جو یہ سب منظر دیکھ رہے تھے، اپنے مسیحی غلام عدّاس کو انگور دے کر نبی ﷺ کے پاس بھیجا۔ جب عدّاس نے آپ ﷺ کو انگور پیش کیے تو آپ ﷺ نے "بسم اللہ" کہا۔ عدّاس حیران ہوا کیونکہ وہ عرب میں یہ الفاظ نہیں سنتا تھا۔ اس نے سوال کیا اور باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ نینوا (عراق) کا رہنے والا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"نینوا حضرت یونسؑ کا علاقہ ہے، جو اللہ کے نبی تھے، میرے بھائی تھے"۔

یہ سن کر عدّاس کے دل کا حال بدل گیا، وہ آپ ﷺ کو بوسے دینے لگا اور ایمان لے آیا۔

آقاؑ کا پورا جسم مبارک زخموں سے بھرا ہوا تھا۔ خون سے تر کپڑے اور بھیگے ہوئے سرخ ہاتھ رب کی طرف اُٹھے اور دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلی: "اے میرے رب! میں اپنی کمزوری اور بے سہارگی کی فریاد تیرے حضور لایا ہوں۔ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں، تو مجھے کسی پروا نہیں، تیرے لطف و کرم ہی کی امید ہے"۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ رب کے حضور سجدہ کیا۔ یہ الفاظ زمین سے آسمان تک ایک پکار بن کر گئے۔ فرشتے سنبھل گئے، آسمان کے دروازے جیسے لرز گئے اور پھر وہ لمحہ آیا جب ربِ کائنات نے اپنے محبوب ﷺ کو تسلی دینے کے لیے عرش سے پیغام بھیجا۔۔ جبرائیلؑ آمین تشریف لائے اور ساتھ طائف کے پہاڑوں کا فرشتہ۔ میرے نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کے بعد اس نے عرض کیا:

"اے محمد ﷺ! اگر آپ چاہیں تو ان دونوں پہاڑوں کو ملا کر اس بستی کو کچل دوں"۔

لیکن محمد ﷺ کی آنکھوں میں عتاب نہیں، رحمت کی روشنی تھی۔

"نہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کی نسلوں میں وہ لوگ پیدا ہوں جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور شرک سے پاک ہوں گے"۔

یہی وہ لمحہ تھا جب آسمانوں سے نصرت کا وعدہ لکھا جا چکا تھا۔ طائف کی وادی کی زمین نے شاید پہلی بار اتنی خاموشی دیکھی تھی، جیسے وہ بھی جان گئی ہو کہ تاریخ کا دھارا پلٹنے والا ہے۔

مکہ کی طرف واپسی پر، محمد ﷺ کے دل میں نہ کڑواہٹ تھی نہ شکوہ۔ وہ جانتے تھے کہ رب کی تدبیر سب سے بلند ہے اور یہ آزمائشیں محض ایک تیاری ہیں۔۔ ایک عظیم انقلاب کے لیے جو دنیا کو انصاف، روشنی اور ایمان سے بھر دے گا۔

شعبِ ابی طالب کی گھاٹیوں کی چیخیں اور طائف کے پتھروں کے زخم اب ایک کہانی کا حصہ بن چکے تھے۔۔ ایسی کہانی جس کے اگلے باب میں نصرت اور وعدے کی صبح نمودار ہونے والی تھی۔

آسمان کے پردوں میں حرکت ہو رہی تھی اور ایک ایسا وعدہ لکھا جا رہا تھا جو کائنات کے ہر ذرے کو ہلا دینے والا تھا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari