Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (6)
رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (6)

مکہ کی وادی اب وہ پرسکون وادی نہیں رہی تھی جہاں قریش کے قافلے چین سے لوٹتے اور خانۂ کعبہ کے سائے میں بیٹھ کر فخر کرتے تھے۔ اب ایک صدا تھی جو گلی گلی گونجنے لگی تھی:
"قولوا لا إله إلا الله تُفلحوا"۔۔ "لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہو جاؤ گے"۔
لیکن قریش کے سرداروں کے دلوں پر تکبّر اور جاہ و منصب کی گرد جمی ہوئی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ کلمہ اُن کے باطل معبودوں اور اقتدار کو روند ڈالے گا۔ یہ صدا دراصل ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے دلوں کو لرزا دیتی تھی۔ ان کے بت، ان کی تجارت، ان کی سرداری سب کچھ اس ایک جملے کے سامنے خاک میں ملنے لگے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر اس صدا کو ابھی نہ دبایا گیا تو یہ پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
پھر وہ دن آ گئے جب ظلم کی ایک نئی تاریخ لکھی گئی۔ غلاموں کو رسیوں سے باندھ کر مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا۔ آزاد لوگوں کو بھی سنگ باری کی جاتی، مارا پیٹا جاتا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے۔ مگر یہ لوگ تھے کہ اپنی زبانوں سے کلمہ تو کیا، رب پر بھروسے کا یقین بھی کم نہ کرتے۔
بلالؓ، وہ سیاہ فام حبشی غلام، جو سرداروں کے قدموں تلے پامال سمجھا جاتا تھا، جب ایمان لایا تو اس کی زندگی جہنم بن گئی۔ امیہ بن خلف نے اس کے جسم کو رسیوں سے جکڑ کر دوپہر کی تپتی ریت پر ڈال دیا۔ جلتی ہوئی ریت جسم کو جلا ڈالتی اور اسکے سینے کے اوپر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ مگر بلالؓ کے لبوں پر صرف ایک ہی صدا رہتی:
"اَحد، اَحد"۔۔
ہر کوڑے کے ساتھ یہ صدا اور گونجتی، ہر زخم کے ساتھ یہ آواز اور بلند ہوتی۔ مکہ کے لوگ حیران رہ جاتے کہ یہ غلام کس مٹی کا بنا ہے جسے درد جھکا نہیں سکتا۔ خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینا اور مؤذن رسول کی سعادت پا جانا یہ سب ایسے ہی نہیں مل جاتا، پہلے اسکے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہے، اس کیلئے دین حق کی خاطر آزمائشیں جھیلنی پڑتی ہیں، جسم کی چمڑی جلوانے کی صورت میں، کوڑے کھانے کی صورت میں۔ میرے آقاؑ کے اس ساتھی کی زندگی تو پڑھ کے دیکھو۔ خدا کی قسم آنکھیں نم اور جسم میں دکھن کا احساس ہونے لگتا ہے۔
اور پھر یاسرؓ کا گھرانہ، وہ نازک وجود جو حق کی خاطر فولاد بن گئے۔ حضرت سمیہؓ۔۔ ایک کمزور سی عورت۔۔ جسے قریش نے مکہ کی گلیوں میں باندھ کر اذیتیں دیں مگر اس کے چہرے سے صبر اور یقین کی روشنی کبھی مدھم نہ ہوئی۔ جب ابو جہل نے اپنی برچھی سے اس کے جسم کو چھلنی کر دیا تو آسمان نے پہلی شہید عورت کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ حضرت سمیہؓ کی شہادت کا سن کر میرے آقا بیحد افسردہ ہوئے۔
حضرت یاسرؓ بھی اسی راہ میں اپنی جان قربان کر گئے، انکی وفات کا سن کر میرے آقاؑ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور دعا فرمائی۔ یاسرؓ کا بیٹا عمارؓ اپنے والدین کے خون سے بھیگے راستے پر ثابت قدم رہا۔ یہ قربانیاں تاریخ کے خونی اوراق پر سنہری حروف میں لکھی گئیں۔
قریش کے سرداروں نے سوچا کہ اگر دولت کے ذریعے محمد ﷺ کو خریدا جا سکے تو شاید یہ صدا دب جائے۔ وہ قیمتی تحائف لے کر آئے، سرداری کی پیشکش کی، حتیٰ کہ بادشاہت تک کا وعدہ کیا۔ لیکن آمنہ کے لعل محمد ﷺ کا جواب ہمیشہ ایک ہی تھا:
"اگر تم سورج میرے ایک ہاتھ میں اور چاند دوسرے ہاتھ میں رکھ دو، تب بھی میں اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کر دے یا میں اس راہ میں جان دے دوں"۔
یہ جواب سن کر قریش کے دلوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے محفلوں میں، بازاروں میں، حتیٰ کہ کعبے کے گرد بھی مسلمانوں کو شدید تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ابوبکرؓ نے اپنی دولت کو مسلمانوں کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ بلالؓ جیسے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا، تاکہ ظلم کی زنجیریں کمزور ہوں۔
لیکن ظلم کم نہ ہوا۔ ہر دن ایک نئی اذیت لے کر طلوع ہوتا۔ مسلمانوں کو معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی تجارت روک دی گئی، ان کے گھروں کا سامان چھین لیا گیا، حتیٰ کہ ان کے ساتھ بات کرنا بھی گناہ سمجھا جانے لگا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر نبی ﷺ نے اپنے چند صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں، جہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی انصاف پسند تھا۔ قافلہ روانہ ہوا اور پہلی بار مسلمانوں نے مکہ سے باہر سانس لی۔
مگر مکہ میں رہ جانے والوں کے لیے آزمائش ابھی باقی تھی۔ قریش نے ایک کاغذ پر معاہدہ لکھا: محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کا مکمل بائیکاٹ، کوئی ان سے نہ خریدے گا، نہ بیچے گا، نہ ان سے رشتہ رکھے گا، نہ ان سے بات کرے گا۔ اس معاہدے کو کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا گیا اور محمد ﷺ کے خاندان کو شعبِ ابی طالب کی گھاٹی میں قید کر دیا گیا۔
راتوں کو جب بھوک سے نڈھال بچے روتے، تو وادی کی خاموشی میں وہ چیخیں سنائی دیتیں جو پتھروں کو بھی رلا دیتیں۔ کبھی کبھی کھجور کا ایک چھلکا، یا خشک پتے پیس کر پانی میں بھگو کر کھائے جاتے۔ مگر حوصلے قائم رہے اور ایمان کی شمع کسی آندھی سے نہ بجھی۔
مکہ کے سردار سمجھتے تھے کہ یہ محاصرہ انہیں توڑ دے گا، لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ قربانیاں ایک ایسی بنیاد رکھ رہی ہیں جس پر دنیا کا سب سے عظیم انقلاب کھڑا ہونے والا تھا۔
شعب کی گھاٹی میں رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور اندھیروں کے بیچ ایک ایسی روشنی پروان چڑھ رہی تھی جو عنقریب پوری دنیا کو جگمگا دینے والی تھی۔
جاری ہے۔۔

