Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (5)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (5)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (5)

مکہ کی رات پرسکون تھی لیکن حرا کی گھاٹی میں ایک دل بےچین تھا۔ محمد ﷺ چٹان پر بیٹھے، آسمان کے بےپناہ سکوت کو دیکھ رہے تھے۔ نیچے مکہ کی بستی نیند میں مدہوش تھی مگر اس دل میں جو روشنی جل رہی تھی، وہ نیند کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ جاہلیت کے اندھیرے، معاشرتی ناانصافی اور روح کی پیاس نے ان لمحوں کو بھاری کر رکھا تھا۔

پہاڑ کی خاموشی میں ہوا کا ایک جھونکا آیا، جیسے کسی انجان پیغام کا پیش خیمہ۔ اچانک، وہ لمحہ آیا جس نے کائنات کی تاریخ کو پلٹ دینا تھا۔ غار کی تاریکی میں ایک نور ابھرا اور ایک آواز گونجی، دل دہلا دینے والی مگر اتنی ہی پر سکون۔ غار میں روشنی پھیل گئی اور ایک عظیم ہستی نے اپنی موجودگی سے فضا کو مخمور کر دیا۔ یہ جبریلِ امینؑ تھے جو خداوندکریم کیجانب سے اپنے محبوب کیلئے وحی کا پہلا پیغام لے کر اُترے تھے۔ اُن کی آواز گونجی:

"اقُرَأُ"

(پڑھ)

محمد ﷺ نے لرزتے ہوئے جواب دیا: "میں پڑھ نہیں سکتا"۔

جبریلؑ نے تین مرتبہ آپ ﷺ کو اپنے بازوؤں میں لیا اور پھر وہ آیات نازل ہوئیں جنہوں نے انسانیت کی تقدیر بدل دی:

﴿اقُرَأُ بِاسُمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۝ خَلَقَ الُإِنسَانَ مِنُ عَلَقٍ ۝ اقُرَأُ وَرَبُّكَ الُأَكُرَمُ ۝ الَّذِي عَلَّمَ بِالُقَلَمِ ۝ عَلَّمَ الُإِنسَانَ مَا لَمُ يَعُلَمُ﴾

(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ! اور تیرا رب سب سے زیادہ کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہ جانتا تھا۔) (العلق: 1-5)

نور کا ایک ہالہ چھا گیا اور کائنات کی روح جیسے ایک نئی دھڑکن کے ساتھ جاگ اُٹھی۔ وہ لمحہ جس کی بشارت آسمانوں نے دی تھی، زمین پر اتر چکا تھا۔ یہ وحی، یہ نور کا پہلا لمس کائنات کی سب سے بڑی خبر تھی کہ اندھیروں کا سفر ختم ہونے والا ہے اور ہدایت کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

"نبیِ مکرم، سرور کونین، سیّدِ دو جہاں، رحمتِ عالمین ﷺ، فخر موجودات، راہِ ہدایت کے آفتاب، امت کے سچے خیر خواہ، گنہگاروں کے شفیع اور ربِ کائنات کے محبوبِ برحق حضرت محمد ﷺ لرزتے قدموں کے ساتھ غار سے نکلے، پہاڑوں اور وادیوں نے جیسے ان کی دھڑکنوں کو سن لیا ہو اور چٹانوں سے صدا آ رہی تھی:

"السلام عليك يا رسول الله"۔۔

گھر لوٹے تو کپکپاہٹ نے جسم کو جکڑ رکھا تھا۔ "زملونی، زملونی" کی صدا کے ساتھ خدیجہؓ نے اوڑھنی لپیٹ دی اور وہ لمحہ سننے لگیں جو تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ بننے والا تھا۔ خدیجہؓ کی آنکھوں میں نہ خوف تھا نہ تردید، صرف یقین تھا۔ انھوں نے کہا: "اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، کمزوروں کا سہارا بنتے ہیں، مسکینوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں مدد کرتے ہیں"۔

وہ انہیں ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو آسمانی کتابوں کے عالم تھے۔ ورقہ نے سن کر کہا: "یہ وہی ناموس اکبر ہیں جو موسیٰؑ پر نازل ہوئے تھے، کاش میں اس دن زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی"۔

یوں وحی کا آغاز ہوا اور دلوں میں ایک نیا اجالا اُترنے لگا۔ ابتدا میں یہ دعوت خاموش تھی، چھپ کر، ایک دل سے دوسرے دل تک، جیسے چاندنی دھیرے دھیرے رات کے اندھیروں کو چھوتی ہے۔

سب سے پہلے ایمان لانے والی خدیجہؓ مطہرہ تھیں، جن کا یقین پہاڑوں کی طرح مضبوط تھا۔۔ علیؓ صرف دس برس کا بچہ۔۔ لیکن دل میں شیر کی جرات۔۔ زید بن حارثہؓ۔۔ جو غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ایمان کی لڑی سے بندھ گئے اور پھر ابو بکرؓ، جن کی نرم مگر پراثر زبان نے قریش کے کئی دلوں کو توڑ کر حق کی طرف موڑ دیا۔

ابو بکرؓ کے ذریعے عثمانؓ، زبیرؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور طلحہؓ جیسے چراغ روشن ہوئے۔ یہ وہ نام تھے جو آنے والے وقت میں تاریخ کے صفحات کو ایمان اور قربانی سے بھر دیں گے۔

دارِ ارقم کی خاموش دیواروں نے وہ پہلا اجتماع دیکھا جہاں قرآن کی آیات نازل ہوتیں اور دل کانپتے ہوئے ان کو سنتے۔ یہ ایک خفیہ تحریک تھی، لیکن دلوں میں جو انقلاب برپا ہو رہا تھا، وہ چھپایا نہیں جا سکتا تھا۔ قرآن کے الفاظ جیسے دل کے پردوں کو چیر کر روح میں اترتے تھے:

"قُم فَأَنذِر"

اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ۔

محمد ﷺ اب صرف خاموش مجاہد نہیں رہے تھے، اب وہ اعلان کرنے والے تھے اور یہ اعلان مکہ کے ہر بت، ہر سردار اور ہر رسم کو چیلنج کرنے والا تھا۔

پہلا اعلان صفا کی پہاڑی پر ہوا، جہاں قریش کے بڑے چھوٹے سب جمع ہوئے۔ محمد ﷺ نے بلند آواز میں کہا: "اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے؟"

سب نے یک زبان ہو کر کہا: "ہاں، ہم نے تمہیں ہمیشہ سچا پایا ہے!"

پھر وہ جملہ گونجا جس نے دلوں کو ہلا دیا: "پھر جان لو کہ میں تمہیں ایک عذابِ عظیم سے ڈراتا ہوں، اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں!"

وہ لمحہ، مکہ کی تاریخ کا موڑ تھا۔ قریش کے سرداروں نے دیکھا کہ یہ دعوت صرف بت پرستی کو نہیں، ان کے غرور، ان کی تجارت اور ان کے اقتدار کو بھی للکار رہی ہے۔ مخالفت شروع ہوئی، طعن و تشنیع، جبر اور تشدد کا ایک سلسلہ۔ لیکن ہر اذیت کے ساتھ یہ صدا اور گونجنے لگی، ہر ظلم کے ساتھ یہ روشنی اور پھیلنے لگی۔

وہ چند لوگ، جو دارِ ارقم کی تنگ گلی میں بیٹھ کر قرآن سنتے تھے، جانتے تھے کہ وہ ایک طوفان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔۔ ایسا طوفان جو صدیوں کے اندھیروں کو بہا لے جائے گا۔

آسمان جیسے خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، گناہوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی زمین جیسے انتظار میں تھی کہ کب یہ آواز پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ آواز پورے عرب کو ہلا دے گی؟

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam