Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (4)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (4)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (4)

مکّہ کی وادی میں سرداروں کے بیچ ایک عورت اپنی غیر معمولی بصیرت اور وقار سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ بےپناہ دولت کی مالک تھی مگر غرور سے خالی، نرم دل مگر غیر معمولی ذہانت رکھنے والی، یہی تھیں خدیجہ بنت خویلدؓ، جنہیں اہلِ مکّہ احترام سے طاہرہ کہا کرتے تھے۔ ان کا گھر تجارت کا مرکز تھا اور اُن کی عقابی نگاہیں ہر شخص کے کردار کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

جب محمد بن عبد اللہ ﷺ شام سے تجارت کا سفر کرکے واپس لوٹے اور ان کے غلام میسرہ نے خدیجہؓ کو بتایا کہ "میں نے ایسا سچّا اور دیانتدار تاجر کبھی نہیں دیکھا، جس نے ایک رتی بھی خیانت نہ کی ہو اور ہر معاملے میں بھلائی کو ترجیح دی ہو"۔

روایت میں آتا ہے کہ سفر کے دوران ایک موقع پر جب گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت ہوگئی تو میسرہ نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا آپ ﷺ کے سر پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ یہ منظر اُسے حیران کر گیا اور اُس نے واپسی پر حضرت خدیجہؓ سے بیان کیا۔

قافلے کا منافع توقع سے کہیں زیادہ ہوا، لیکن اس سے بڑھ کر حضرت خدیجہؓ کے دل کو جو چیز چھو گئی، وہ محمد ﷺ کی امانت اور شرافت تھی۔ یہی کردار اُنہیں رشتۂ نکاح تک لے آیا اور یہی وہ گھرانہ بنا جو رحمتوں اور سکون کا گہوارہ ثابت ہوا۔

خدیجہؓ کے دل میں ایک غیر معمولی اعتماد جاگ اُٹھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ نوجوان عام سوداگروں کی طرح نہیں ہے اس کے کردار میں وہ روشنی ہے جو صدیوں میں کبھی ظاہر ہوتی ہے۔

اللہ رب العزت نے اسی عظیم کردار کی گواہی بعد ازاں قرآن میں کچھ اس طرح دی: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾

"اور بے شک آپ عظیم اخلاق والے ہیں"۔ (القلم: 4)

کچھ ہی دن گزرے تھے کہ خدیجہؓ نے کافی سوچ بچار کے بعد اپنی ایک قریبی رفیقہ کے ذریعے محمد ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ عبد المطلب کی عظمت اور خاندانِ ہاشم کی شرافت کے ساتھ محمد ﷺ کی امانت و دیانت نے یہ رشتہ قبول کرنے میں ذرا بھی تردد نہ ہونے دیا۔ عبد اللہ کی یتیمی میں پلنے والے محمد ﷺ کے دل میں کبھی ایسا گھریلو سکون نہ اُترا تھا جو خدیجہؓ کے گھر کی دیواروں میں محسوس ہوا۔

نکاح کا دن مکّہ کی فضاؤں میں ایک عجیب سی خوشبو بھر گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ شادی کے وقت میرے آقا ﷺ کی عمر مبارک 25 سال جبکہ خدیجہؓ کی عمر 40 برس تھی۔ شادی کے دن خاندان والے خوشی سے جھوم اُٹھے۔ نکاح بہت سادگی سے انجام پایا۔ سیدہ آمنہ کے لختِ جگر نے اپنے لیے ایک ایسا گھر پایا جہاں سکون اور محبت کے چراغ روشن تھے۔ خدیجہؓ کا اعتماد، ان کا وقار اور ان کا بے لوث پیار اس گھر کو وہ پرسکون جنت بنا گیا جہاں دنیا کے شور سے دور ایک خاموشی بسیرا کرتی تھی۔

رسولِ اکرم ﷺ کا سراپا ایسا حسین و جمیل تھا کہ گویا قدرت نے حسن و کمال کے سارے رنگ یکجا کرکے ایک پیکرِ نور میں ڈھال دیے ہوں۔ الرحیق المختوم اور دیگر روایات کے مطابق آپ ﷺ کا قد نہ زیادہ بلند تھا نہ پست، بلکہ ایسا متوازن اور دل آویز کہ دیکھنے والے کی نگاہ ٹھہر جائے۔ چہرہ مبارک گولائی لیے ہوئے، چمکدار اور ایسا روشن کہ جیسے چودہویں کا چاند طلوع ہو۔ پیشانی کشادہ، بھنویں باریک اور ہلکی سی خم دار، آنکھیں بڑی اور سیاہ، پلکیں دراز اور گھنی اور ان میں ایسا جادو کہ گویا محبت اور حیاء کی لہریں بہہ رہی ہوں۔ ناک مبارک سیدھی اور ستواں، دانت مبارک موتیوں کی قطار کی طرح چمک دار۔ جب مسکراتے تو نور کی کرنیں بکھرتیں اور دل کے اندھیرے دور ہو جاتے۔

سر کے بال گھنے، سیاہ اور نرم، کبھی کاندھوں تک آتے اور کبھی کانوں تک رہتے۔ داڑھی مبارک گھنی اور خوبصورت، رخسار ہلکے بھرے ہوئے اور رنگت گندمی مگر ایسی شفاف کہ نورانی چمک ہر لمحہ ظاہر ہوتی۔ جسم اطہر کی ساخت مضبوط، بازو لمبے اور ہتھیلیاں نرم و کشادہ اور چلنے کا انداز ایسا کہ جیسے زمین آپ ﷺ کے استقبال میں بچھتی جا رہی ہو۔

جو بھی آپ ﷺ کو دیکھتا فریفتہ ہو جاتا۔ حسن و وقار، جلال و جمال اور نور و انکسار کا ایسا امتزاج کہ انسان حیرت میں گم ہو جائے۔ یہی وہ سراپا تھا جس پر ربِ کائنات کو ناز تھا اور جس کی جھلک دیکھ کر صحابہ کرامؓ کی زبان سے بے اختیار نکلتا: "ما رَأَیُنا قَبُلَکَ وَلا بَعُدَکَ مِثُلَکَ یا رَسُولَ اللہِ ﷺ"۔

اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ سا کوئی نہیں دیکھا۔

ماہ و سال گزرتے گئے۔ خدیجہؓ نے میرے آقا ﷺ کو وہ سکون دیا کہ تاریخ کے اوراق آج بھی اس پر رشک کرتے ہیں اور آپ نے حضرت خدیجہ کی زندگی یکسر بدل کر رکھ دی۔ پھر اس خاموش سکون میں ارتعاش پیدا ہوا اور ایک عجیب سی کیفیت نے جنم لینا شروع کیا۔ محمد ﷺ اکثر راتوں کو آسمان کو تکتے رہتے۔ کبھی کبھی وہ خواب دیکھتے جن میں ایک روشنی جھلملاتی اور کچھ کلمات دل کے پردوں پر نقش ہو جاتے، جو بیداری میں بھی گونجتے رہتے۔ یہ خواب اتنے سچے ہوتے کہ وہ حیران رہ جاتے۔

کبھی ایسا ہوتا کہ وہ کسی اجنبی سے ملتے اور وہ اجنبی تعجب سے کہتا: "اے محمد! تم پر سلام ہو، تمہارے چہرے پر نور دکھائی دیتا ہے"۔

محمد ﷺ ان باتوں کو ایک ہلکی مسکراہٹ میں چھپا لیتے، مگر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔

خدیجہؓ نے بھی محسوس کیا کہ ان کے شوہر کی طبیعت میں بہت بدلاؤ نظر آ رہا ہے اور ایک عجیب سی گہرائی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ زیادہ خاموش رہنے لگے تھے، دنیا کے ہنگامے اُنہیں کم لبھاتے تھے اور وہ اکثر وادی مکہ کے گرد اکیلے چلے جاتے۔ خدیجہؓ نے اس تبدیلی کو کبھی شکوہ کا موضوع نہ بنایا بلکہ ان کی خاموشی کو محبت اور اعتماد کے ساتھ سہارا دیا۔

یہی وہ دن تھے جب محمد ﷺ نے جبلِ نور کے ایک غار کو اپنا مسکن بنا لیا۔ غارِ حرا کی تنہائیوں میں بیٹھ کر وہ کائنات کے اسرار پر غور کرتے، ستاروں سے سجے آسمان کو تکتے اور سوچتے کہ یہ سب کس نے بنایا ہے، یہ زندگی کیوں ہے اور انسان کے وجود کا مقصد کیا ہے۔ وہ گھٹنٹوں وہاں بیٹھے رہتے، پہاڑ کی خاموشی میں دل کی آواز سنتے اور کسی ان کہی پکار کے جواب کو تلاش کرتے۔

مکّہ کے شور سے دور، اُس پہاڑ کی تنہائیوں میں ایک عجیب سا سکوت پھیل جاتا تھا، مگر اب وہ سکوت جیسے بوجھل ہونے لگا تھا۔ کچھ ہونے والا تھا، کچھ ایسا جو صدیوں کے پردے چاک کرنے والا تھا۔

غارِ حرا کی خاموش تنہائیوں میں سانسیں بوجھل ہونے لگیں، گویا تقدیر کا قافلہ قریب ہی خیمہ زن ہونے والا ہو۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan