Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (3)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (3)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (3)

مکّہ کی تپتی ریت اور پہاڑوں کی خاموشی اُس یتیم بچے کی تنہائی کے گواہ ہیں جس کی پیشانی میں نور تھا اور نگاہ میں وہ سکون، جو بعد میں لاکھوں دلوں کا قرار بننے والا تھا۔ ابھی وہ اپنی والدہ حضرت آمنہؓ کی محبت بھری آغوش میں سکون پانے لگا ہی تھا کہ قسمت نے ایک اور امتحان لکھ دیا۔ یثرب کے سفر سے واپسی پر جب کارواں مکّہ کے قریب "ابواء" کے مقام پر رُکا تو وہ لمحہ آیا جس نے تاریخ کے صفحات کو اشکبار کر دیا۔ سیدہ آمنہؓ نے بیماری کے باعث اپنی آخری سانسیں لیں اور وہ معصوم سا بچہ، جو ابھی ماں کے لمس کو سمجھ بھی نہ پایا تھا، ہمیشہ کے لیے اُس لمس سے بھی محروم ہوگیا۔

راوی لکھتے ہیں کہ حضرت اُمّ ایمنؓ، جو اس سفر میں ساتھ تھیں، اُسے لے کر مکّہ واپس آئیں اور اس سفر کے دوران وہ بار بار اس آسمان کی طرف دیکھتا جس کے نیچے اب اُس کی ماں آسودہ خاک تھی۔ شاید وہ ننھی آنکھیں یہ سوال کر رہی تھیں: "میری ماں کہاں گئی؟"

اور اُس لمحے آسمان سے ایک آواز اُتری جسے سالوں بعد قرآن نے یوں محفوظ کر دیا: ﴿أَلَمُ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَآوَى﴾

"کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر پناہ نہ دی؟" (الضحیٰ: 6)

ماں کی جدائی کے بعد دادا عبدالمطلب نے ننھے محمد ﷺ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ وہ کعبہ کے سائے میں اُسے اپنے پاس بٹھاتے اور گود میں لے کر رو دیتے۔ روایات بتاتی ہیں کہ انھی ایام میں سردار عبدالمطلب بیحد غمگین اور افسردہ رہنے لگے۔ قریش کے بڑے بزرگ بھی جانتے تھے کہ عبدالمطلب کا یہ پوتا عام بچہ نہیں۔ لیکن تقدیر کے اور بھی امتحان باقی تھے۔ صرف آٹھ برس کی عمر میں دادا کا سایہ بھی اُٹھ گیا اور اُس ننھی سی جان نے ایک بار پھر تنہائی کا درد سہا۔

پھر چچا ابوطالب کا گھر نصرت کا ذریعہ بنا۔ غربت اور تنگ دستی کے باوجود ابوطالب نے اُسے اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یتیمی کا وہ احساس جو ایک بچے کے دل کو چھو جاتا ہے، وہ نبی ﷺ کے دل میں ہمیشہ زندہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر جب بھی کوئی یتیم سامنے آتا تو اُن کے چہرے پر افسردگی کے ساتھ وہی محبت اور شفقت اُترتی جو کسی ماں کی آغوش میں سمٹ جانے کا سکون دیتی ہے۔ وقت پر لگا کر اڑتا گیا اور میرے آقا محمد ﷺ نے چچا ابوطالب کے زیرسایہ اپنی نوجوانی کی دہلیز پر پاؤں مبارک رکھا۔

مکہ کی وادی اس وقت عرب کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ صبح کا سورج جب کوہِ صفا کے پیچھے سے نکلتا تو گلیوں میں ایک عجیب سی چہل پہل شروع ہو جاتی۔ قریش کے سردار اپنی قیمتی ریشمی چادریں اوڑھ کر کعبہ کے صحن میں بیٹھ جاتے، غلام قافلوں کے سامان کو ترتیب دیتے اور سوداگر اپنے اونٹوں پر خوشبوئیں، چمڑے، اناج اور کپڑوں کے گٹھڑ کسنے میں مصروف ہوتے۔ قافلے کی گھنٹیاں جب بجتی تھیں تو پورا مکہ ایک نئی زندگی کی آہٹ سنتا۔

انہی دنوں مکہ کی گلیوں میں ایک نوجوان اپنی سادگی، سنجیدگی اور بے مثال کردار کے باعث سب کی نگاہوں کا مرکز بن رہا تھا۔ چہرہ شفاف، آنکھوں میں گہری سنجیدگی اور ہونٹوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ، یہ محمد بن عبداللہ ﷺ تھے، جنہیں مکہ والے ایک معتبر نوجوان کے طور پر یاد کرنے لگے تھے۔ ان کی شہرت محض ان کے خاندان یا حسب نسب کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس لیے بھی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، کسی کا حق نہیں دبایا اور کبھی کسی کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کی۔

کاروباری قافلوں میں امانت اور دیانت سب سے قیمتی سرمایہ سمجھی جاتی تھی اور "نام ہی گارنٹی ہے" کے مصداق محمد ﷺ کا نام اس حوالے سے ایک سند بن چکا تھا۔ اگر کسی کو اپنا مال کسی محفوظ ہاتھ میں دینا ہوتا تو سب کی زبان پر ایک ہی نام آتا: "محمد"۔ لوگ اپنے قیمتی سامان کے گٹھڑ ان کے سپرد کر دیتے اور اطمینان سے کہتے، "اب یہ چیز خدا کی امان اور محمد کی امان میں ہے"۔

جوانی کے دنوں میں جب دیگر نوجوان عیش و عشرت، قمار بازی اور بے راہ روی میں اپنے دن گزارتے تھے، محمد ﷺ کی زندگی ان سب آلائشوں سے پاک تھی۔ وہ تجارت کے کام میں لگے رہتے، ضعیفوں کی مدد کرتے اور ہر حال میں سچائی اور دیانت داری کو اپنا شعار بنائے رکھتے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ کی فضا میں ان کے کردار کی خوشبو چہار سو پھیلتی جا رہی تھی۔

لیکن یہ وہ زمانہ بھی تھا جب مکہ کی سرزمین پر قبائل کی انا اور طاقت کی جنگیں وقتاً فوقتاً شعلہ بن کر بھڑک اُٹھتیں۔ انہی میں سے ایک جنگ "حرب الفجار" کے نام سے جانی جاتی ہے، جو حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے کئی دنوں تک جاری رہی۔ اس جنگ میں محمد ﷺ براہِ راست قتال میں شریک نہ ہوئے، مگر اپنے چچاؤں کو تیر دینے اور زخمیوں کی مدد کرنے کے عمل میں انہوں نے وہ ہمدردی اور جرات دکھائی جس نے سب کو حیران کر دیا۔ اس وقت بھی وہ خونریزی اور ظلم کے خلاف تھے، مگر انہوں نے اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے قبیلے کا ساتھ دیا۔

حرب الفجار کے بعد جب قریش کے کچھ سردار ظلم و زیادتی کے خلاف ایک معاہدہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو محمد ﷺ نے اپنے بچپن کے دوست زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ معاہدہ "حلف الفضول" کہلایا۔ عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ہونے والے اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ مکہ میں کسی پر ظلم نہ ہوگا، کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور جو بھی مظلوم ہوگا، سب اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے، چاہے وہ قریش کا فرد ہو یا غیر قریشی۔

محمد ﷺ اس معاہدے میں شریک ہونے کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ برسوں بعد بھی وہ فرمایا کرتے تھے: "میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج بھی اسلام کے دور میں مجھے اس کی طرف بلایا جائے تو میں خوشی خوشی لبیک کہوں گا"۔

یہ وہ لمحہ تھا جب مکہ نے پہلی بار دیکھا کہ ایک نوجوان کس طرح عدل اور حق کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے، بغیر کسی ذاتی مفاد کے، صرف انصاف کے لیے۔

یہی کردار اور دیانت تھی جس نے حضرت خدیجہؓ کے دل میں محمد ﷺ کے لیے اعتماد پیدا کیا جب انہوں نے شام کے تجارتی قافلے میں اپنے سامان کی حفاظت اور فروخت کی ذمہ داری محمد ﷺ کو سونپی۔ قافلہ روانہ ہوا تو اونٹوں کے گلے میں بجتی گھنٹیاں اور کاروان کی گرد و غبار میں وہ اعتماد چھپا ہوا تھا جو ایک نوجوان کے کردار پر قائم ہوا تھا۔

شام کی طرف جانے والے راستے پر جب کارواں آگے بڑھتا گیا، تو صحرا کی ریت اس نوجوان کے قدموں کی گواہ بنتی گئی، جو آنے والے دنوں میں دنیا کی تقدیر بدلنے والا تھا۔ مکہ والے اس قافلے کو ایک عام تجارتی سفر سمجھ رہے تھے مگر آسمان پر قسمت کے صحیفے کچھ اور لکھ رہے تھے اور پھر جب قافلے کی گرد مکہ سے دور افق پر دھندلانے لگی، تو صحرا کی ہوا نے ایک خاموش پیغام دیا: شام کی تجارت کے قافلے میں اُٹھنے والی گرد دراصل ایک نئے رُخ کا اشارہ دے رہی تھی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam