Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (2)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (2)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (2)

سردار عبدالمطلب کے گھر گویا جشن کا سماں تھا۔ دیگر قبائل کے سرداروں کی دعوت و طعام کا سلسلہ جاری تھا۔ جو بھی محمد ﷺ کو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ مکہ کی گلیاں اُس وقت بھی گرم ریت اور بلند پہاڑوں کے حصار میں لپٹی ہوئی تھیں لیکن ان گلیوں میں ایک ایسا بچہ موجود تھا جس کو دیکھتے ہی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی اور جس کی مسکراہٹ میں سکون اور محبت کا پیام تھا۔ وہ بچہ، جو کبھی یتیمی کی خاموشیوں میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا، تو کبھی اپنی معصومیت سے قریش کی عورتوں اور مردوں کے دل جیت لیتا۔ مکہ کے رواج کے مطابق سردار عبدالمطلب نے آپ کو دودھ پلانے اور پرورش کیلئے پرفضا مقام پر بھیجنے کا ارادہ کیا۔

بنی سعد کا قافلہ اپنے معمول کے سفر پر نکلا تو اونٹنیوں کی پیٹھ پر لٹکتے مشکیزے خالی اور چہرے مایوس تھے۔ آسمان پر سورج تپش کے تیروں کی بارش کر رہا تھا اور زمین کی پیاس صدیوں پرانی لگتی تھی۔ قافلے کی عورتیں اپنے نصیب کو کوستی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں، مگر حلیمہ سعدیہ کے دل میں ایک اور ہی کرب سمایا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ اُن کی اونٹنی سب سے کمزور ہے، ان کا گھر سب سے غریب ہے اور اُن کے حصے میں کوئی خوش نصیب بچہ نہیں آنے والا جسے دودھ پلا کر کچھ روزی کما سکیں۔

مکّہ پہنچ کر قافلہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا، خوش قسمت عورتیں اپنے اپنے حصے کا بچہ گود میں لے کر خوشی خوشی واپس لوٹنے لگیں۔ مگر حلیمہ کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ جب وہ قافلے کی آخری عورت کے ساتھ واپس پلٹنے لگیں تو ایک بوڑھی عورت نے اشارہ کیا: "وہ بچہ، جس کے باپ کا سایہ نہیں، وہ ابھی تک کسی نے نہیں لیا"۔

خدانخواستہ ایسا نہیں تھا کہ آقاؑ نے کسی غریب گھر میں جنم لیا تھا بلکہ عبدالمطلب اپنے وقت کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس وقت خواتین کسی یتیم بچے کو اس گمان کی وجہ سے گود لینے سے کتراتی تھیں کہ اس گھر سے کوئی انعام و اکرام و معاوضہ بہت کم ملے گا کیونکہ والد زندہ نہیں ہے۔ حلیمہ نے بے دلی سے سیدہ آمنہ کے گھر کا رُخ کیا۔ دروازہ کھلا تو ایک نورانی منظر نے اُن کے دل کو جیسے جکڑ لیا۔ ایک یتیم بچہ، جس کی پیشانی سے چمک جھلملاتی تھی، سیدہ آمنہ کی گود میں سکون سے سو رہا تھا۔ حلیمہ سعدیہ نے اُسے دیکھا تو دل کی دنیا بدل گئی۔ "اگرچہ یہ یتیم ہے، مگر اس کے چہرے پر ایسی روشنی ہے جو کبھی نہیں دیکھی"۔ یہ سوچتے ہوئے انہوں نے سیدہ آمنہ سے وہ بچہ لے لیا اور قافلے کے ساتھ واپس چل پڑیں۔

واپسی کا سفر وہ نہ تھا جو مکّہ کی طرف جاتے ہوئے تھا۔ ہوا میں نمی اُتر آئی، قافلے کی خشک زمین پر سبزہ پھوٹنے لگا اور حلیمہ کی کمزور اونٹنی سب سے آگے نکل گئی۔ قافلے کی عورتیں حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتیں اور سرگوشیوں میں کہتیں، "یہ کون سا بچہ ہے جو برکت ساتھ لے آیا ہے؟"

جب ننھے محمد ﷺ نے حلیمہ سعدیہ کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھولیں تو اُن کی دنیا بدل گئی۔ اُن کا کمزور گھر خوشحالی کا مرکز بن گیا۔ دودھ خشک ہو جانے والی چھاتیاں لبالب بھر گئیں، بکریوں کے تھن دودھ سے بھرنے لگے اور بنی سعد کی بستی میں وہ برکت اتر آئی جو سب کو حیران کر گئی تھی۔

ننھے محمد ﷺ کی معصومیت اور سکون نے سب کے دل جیت لیے تھے۔ دیگر بچوں کے برعکس محمد ﷺ ہمیشہ پرسکون رہتے۔ وہ کبھی ضد نہ کرتے، نہ کسی کو پریشان کرتے اور اپنی بڑی آنکھوں سے ایسے مسکراتے جیسے صحراؤں کی تپتی ریت میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آ گیا ہو۔ حلیمہ کہتیں: "یہ بچہ ہمارے لیے رحمت ہے۔ جب یہ مسکراتا ہے تو لگتا ہے کہ غم اور دکھ سب رخصت ہو گئے"۔

سال گزرتے گئے اور محمد ﷺ کا بچپن اپنی شانِ نرالی کے ساتھ پروان چڑھنے لگا۔ سردار عبدالمطلب وقتاً فوقتاً پوتے کو ملنے چلے آتے، انھیں گود میں لیتے، سر پر ہاتھ پھیرتے، پیشانی مبارک پر بوسہ دیتے۔ نبی مکرم ﷺ کو سنبھالنے والی شیماں بتاتی ہیں کہ جب دوسرے بچے کھیل کود میں جھگڑتے یا ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے تو محمد ﷺ ہمیشہ سچ بولتے اور سیدھی بات کرتے، نہ کبھی گالی دی اور نہ ہی غصہ میں آتے۔ اگر کوئی دوست ناراض ہو جاتا تو دوسروں کو مناتے اور اپنے حصے کی کھانے کی چیز دوسروں کو بانٹ دیتے۔

ایک دن گاؤں کے چند بچے چراگاہ میں بکریاں چرا رہے تھے۔ اچانک آسمان پر بادل گرجنے لگے اور بچے خوف سے چیخنے لگے۔ ننھے محمد ﷺ نے سکون سے سب کو قریب کیا اور کہا:

"ڈرو نہیں، یہ بارش لائیں گے"۔

بچے حیران رہ گئے کہ ایک اتنا چھوٹا بچہ اتنے اطمینان سے یہ بات کہہ سکتا ہے۔

پھر ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے حلیمہ کو یقین دلا دیا کہ یہ بچہ عام نہیں۔ ایک دن جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ چراگاہ میں کھیل رہے تھے، بھائی دوڑتا ہوا گھر آیا اور بولا: "ماں! محمد ﷺ کے پاس دو سفید کپڑوں والے آئے تھے، انہوں نے محمد ﷺ کو لٹایا اور اس کا سینہ کھول کر کچھ نکالا، پھر دھو کر واپس رکھ دیا!"

حلیمہ کے دل کی دھڑکن رک گئی، وہ دوڑتی ہوئی پہنچی تو دیکھا کہ محمد ﷺ پرسکون چہرے کے ساتھ بیٹھے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وہ گھبرا کر اُسے گود میں لے آئیں، مگر ننھا بچہ مسکراتا رہا۔ حلیمہ سعدیہ شق صدر کے واقعہ کے بعد پریشان رہنے لگیں۔

بنی سعد کے بوڑھے بزرگ کہتے: "ہم نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا، یہ عام انسان نہیں"۔

آپ ﷺ نے اماں حلیمہ سعدیہ کے ہاں چار سال تک قیام کیا۔ جب محمد ﷺ نے اپنی والدہ کی گود میں واپس آنا تھا تو بستی کا ہر دل رو رہا تھا۔ امی حلیمہ سعدیہ کے گھر کا ہر فرد اُسے جاتے دیکھ کر یوں غمزدہ تھا جیسے روشنی کا چراغ بجھ رہا ہو۔ مگر ننھے محمد ﷺ کی مسکراہٹ سب کو تسلی دیتی تھی۔

واپسی کے بعد بھی اُن کی معصومیت اور سچائی نے سب کو حیران کیے رکھا۔ جب بچے کھیل میں دھوکہ دیتے، تو وہ کھیل سے الگ ہو جاتے۔ جب لوگ بتوں کی قسم کھاتے تو وہ خاموش رہتے۔ اُن کے دل کی روشنی اور پیشانی کا وقار اُنہیں دوسروں سے الگ کرتا تھا۔

قریش کے بڑے بزرگ اکثر کہا کرتے: "یہ بچہ اپنے ہم عمروں سے مختلف ہے، اس کی باتوں میں وقار اور سچائی جھلکتی ہے اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی گہرائی ہے"۔

لیکن کوئی یہ جان نہ سکا کہ یہ ننھا بچہ دراصل اُس انقلاب کا نقطۂ آغاز ہے جو دنیا کے دھارے کو بدل دے گا۔ قریش کو خبر نہ تھی کہ یہ بچہ تاریخ کے دھارے کو بدلنے والا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari