Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (12)
رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (12)

جب روح قفس عنصری سے پرواز کرتی ہے۔۔
وہ عرفات کا میدان تھا۔۔ سورج اپنی نرم کرنوں سے وادی کو روشن کر رہا تھا اور جبلِ رحمت کے دامن میں ایک ایسا مجمع سجا ہوا تھا جو قیامت تک تاریخ کا سب سے عظیم منظر بن گیا۔ ایک لاکھ سے زائد مسلمان، سب کے سب سفید احرام میں، زبانوں پر لبیک کی صدائیں، دلوں میں ایمان کی حرارت اور آنکھوں میں رسولِ رحمت ﷺ کے دیدار کا نور۔
نبیِ اکرم ﷺ اپنی اونٹنی "قصواء" پر سوار ہوئے، مجمع پر سکوت طاری ہوگیا، صرف ہوا کی سرسراہٹ اور لبیک کی دھیمی صدائیں باقی رہ گئیں۔ پھر وہ لب ہلے جو کائنات کے سب سے سچے لب تھے اور وہ آواز گونجی جو قیامت تک انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت ہے۔ حضور ﷺ نے ایک بڑے مجمع کے سامنے ایک ایسا خطبہ ارشاد فرمایا، جس نے نبوت کی تمام تعلیمات کا نچوڑ پیش کیا۔۔ وہ نصیحتیں جو امتِ مسلمہ کی رہنمائی اسی قیامت تک کرتی رہیں گی۔
جب حضور ﷺ نے فرمایا: "اے لوگو! زرا غور سے سنو: کیونکہ شاید میں اس سال کے بعد تم سے دوبارہ نہ ملوں۔ لہٰذا جو میں کہہ رہا ہوں اسے سن کر سمجھو اور اسے اُن تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں ہیں"۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسے اس دن، اس مہینے اور اس شہر کی حرمت ہے۔
عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، وہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں"۔
"سود کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس کا سود ختم کرتا ہوں"۔
"میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو"۔
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت"۔
یہ لفظ نہیں، حجتِ الٰہی تھی۔۔ وہ پیغام جو برتری نہیں، عدل اور تقویٰ کی بنیاد پر تمام انسانوں کو یکجہتی میں باندھتا تھا۔
آہ۔۔ آسمان سے وہ آیت اُتری جو دین کی تکمیل کی مہر بن گئی: ﴿الُيَوُمَ أَكُمَلُتُ لَكُمُ دِينَكُمُ وَأَتُمَمُتُ عَلَيُكُمُ نِعُمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الُإِسُلَامَ دِينًا﴾ (المائدۃ: 3)
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند کر لیا"۔
حضرت عمرؓ کے آنسو بہہ نکلے، گویا دل نے محسوس کر لیا تھا کہ اب وقت جدائی آن پہنچا ہے۔
مدینہ واپس لوٹنے والے چہروں پر روشنی نہیں بلکہ غم کا سناٹا تھا۔ قافلے کی فضاؤں میں خاموشی اور امت کے ماتھے پر وصال کی پیشگوئی کا سایہ تھا۔ مدینہ کی شام نے ایک ایسا لمحہ دیکھا۔۔ ایک چمکتا ہوا چراغ بجھنے گیا، لیکن اس کے روشن ہونے کا ثبوت ہر دل پر بجھا نہ تھا۔
دن گزرتے گئے۔ نبی کریم ﷺ کو سفر آخرت کے اشارے ملنا شروع ہو گئے۔ مدینے کی ہوائیں ان دنوں کچھ اور ہی سنبھل سنبھل کر چل رہی تھیں جیسے پورا عالم خاموشی کی چادر اوڑھے رسولِ رحمت ﷺ کے لبوں کی جنبش کا منتظر ہو۔ در و دیوار پر ایک عجیب سی اداسی طاری تھی، آسمان جیسے جھک کر زمین کے قریب آ گیا ہو اور ہوا میں وہی مہک رچی بسی تھی جو صدیوں سے اہلِ ایمان کے دلوں کو سکون دیتی آئی تھی۔
مرضِ وفات کے دن تھے۔ آپ ﷺ کو بخار نے نڈھال کر دیا تھا، مگر چہرہ مبارک اب بھی وہی چمک لیے ہوئے تھا جو دلوں کو یقین عطا کرتی تھی۔ آپ ﷺ کے دل میں ایک خواہش مچلتی تھی، ایک سکون کی طلب کہ آخری سانسیں اُس حجرے میں لیں جہاں محبت اور خلوص کی روشنی برسوں سے آپ کے لیے محفوظ تھی۔۔ اُم المؤمنین امی حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حجرہ۔ آقا دو جہاں و ساقی کوثر حضرت محمد ﷺ کے حکم پر تمام امہات المومنین کو حاضر کیا گیا۔
آپ ﷺ نے نرم اور دھیمی آواز میں فرمایا: "میرے اہلِ خانہ سے کہہ دو، مجھے عائشہ کے حجرے میں جانے کی اجازت دے دو"۔
یہ الفاظ گویا دلوں کو چیر گئے۔ کون تھا جو محبوبِ خدا کی خواہش کے آگے ایک لفظ بھی کہہ سکتا؟ در و دیوار پر نگاہیں جھک گئیں اور پھر خاموشی میں صرف یہی صدا گونجی: "اللہ کے رسول، یہ گھر آپ کا ہے، یہ حجرہ آپ کا ہے"۔
حضرت علیؓ اور حضرت فضل بن عباسؓ نے آپ کو دونوں جانب سہارا دیا اور وہ متبرک وجود اطہر آہستہ آہستہ اس حجرے میں داخل ہوا جہاں محبت سراپا انتظار بنی کھڑی تھی۔ امی عائشہؓ کی آنکھوں میں بےقرار آنسو تیرنے لگے مگر لبوں پر صبر کی دعا تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ لمحات ہمیشہ کے لیے تاریخ کی کتاب میں نقش ہو رہے ہیں۔
دن گزرتے گئے، بخار کی شدت بڑھتی گئی۔ میرے آقا ﷺ نے تازہ پانی کا پیالہ پاس منگوا لیا۔ آپ ﷺ اپنا ہاتھ مبارک اس پیالے میں گیلا کرتے اور اپنے چہرہ انور پر پھیر لیتے۔ کبھی کبھی آپ ﷺ کے لب ہلتے اور زیرِ لب دعا کے کلمات بکھرتے، کبھی اُمت کے لیے ہمدردی کے ایسے جملے ادا ہوتے جو دلوں کو دہلا دیتے:
"اے اللہ! میری اُمت، میری اُمت"۔
اور امی عائشہؓ کی آنکھوں میں آنسوؤں کے سمندر مزید چھلک جاتے۔ وہ کبھی آپ ﷺ کے ماتھے پر ہاتھ رکھتیں، کبھی لرزتے ہاتھوں کے ساتھ پانی پیش کرتیں، مگر دل کے اندر طوفان برپا رہتا۔
پھر وہ لمحہ آیا جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ کے دامن ہمیشہ تنگ رہیں گے۔ دوپہر کا وقت تھا، حجرے میں ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کی گود میں سر رکھے ہوئے تھے۔ چہرہ مبارک سکون اور جلال کا حسین امتزاج پیش کر رہا تھا۔
اچانک آپ ﷺ نے آنکھیں کھولیں، آسمان کی طرف دیکھا اور ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی، جیسے اپنے محبوب سے ملاقات کا اشارہ مل گیا ہو۔
آپ ﷺ نے آہستہ سے کہا: "بلِ الرفیقِ الأعلى، بلِ الرفیقِ الأعلى"۔
(بلکہ اعلیٰ رفیق کی طرف، بلکہ اعلیٰ رفیق کی طرف)
امی عائشہؓ کے دل کی دھڑکن جیسے تھم گئی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ رحمتِ دو جہاں ﷺ کی سانسیں دھیرے دھیرے مدھم ہو رہی ہیں اور پھر ایک لمحہ ایسا آیا جب کائنات کے سب چراغ بجھ گئے۔ آپکی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
رسولِ رحمت ﷺ اپنی اُمت کو ہمیشہ کے لیے یادوں اور روشنیوں کے حوالے کرکے اپنے رب کے حضور جا چکے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی گود میں وہ لمحہ ہمیشہ کے لیے جم گیا۔ آنسو تھمے نہیں، دل لرزتے رہے، مگر صبر کی چادر اوڑھ کر انہوں نے اُمت کو وہ آخری پیغام سنایا جو رحمتِ عالم ﷺ نے چھوڑا تھا۔۔ اُمت کی خیر خواہی، محبت اور اللہ سے ملاقات کی خوشبو۔
امی عائشہؓ کا حجرہ غم کا مرکز بنا ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے دل پھٹ رہے تھے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبانیں جیسے گنگ ہو چکی تھیں۔ حضرت عمرؓ بے قرار تھے، تلوار سونت لی اور بلند آواز میں کہنے لگے: "جو کوئی کہے کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے ہیں، میں اس کا سر قلم کر دوں گا! رسول اللہ ﷺ اپنے رب سے ملاقات کے لیے گئے ہیں اور واپس آئیں گے، جیسے موسیٰؑ اپنی قوم کی طرف لوٹے تھے!"
لیکن حقیقت تو حقیقت تھی۔۔ وہ حقیقت جسے ماننا سب کے لیے کٹھن تھا۔
حضرت ابوبکرؓ کا ایمان افروز خطاب
حضرت ابوبکر صدیق نم آنکھوں اور لرزتے قدموں کے ساتھ حجرۂ عائشہؓ میں داخل ہوئے، نبی کریم ﷺ کے چہرۂ انور سے چادر ہٹائی، پیشانی مبارک کو بوسہ دیا اور کہا: "اے اللہ کے رسول! آپ پاکیزہ زندگی گزار کر، پاکیزہ ہی ہم سے رخصت ہو گئے"۔
پھر مسجد نبوی میں آ کر وہ الفاظ کہے جو قیامت تک دلوں کو سنبھالا دیتے رہیں گے:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدُ خَلَتُ مِنُ قَبُلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِيُن مَّاتَ أَوُ قُتِلَ انُقَلَبُتُمُ عَلَىٰ أَعُقَابِكُمُ ۚ وَمَن يَنُقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيُهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيُئًا ۗ وَسَيَجُزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾ (آل عمران: 144)
"محمد ﷺ تو ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟"
یہ آیت سنتے ہی حضرت عمرؓ کے پاؤں کانپ گئے، تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور حقیقت ان کے دل میں اتر گئی۔ مسجد نبوی میں رونے کی ایسی صدا بلند ہوئی جو آج بھی مدینہ کی فضاؤں میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔
اس روز مدینہ یوں رویا جیسے کبھی نہ رویا ہو۔ زمین نے اپنے دامن میں محبوبِ خدا کو سمیٹ لیا اور آسمان نے عرش کی زینت میں ایک اور نور کا اضافہ کر لیا۔
لیکن امی عائشہؓ کے حجرے کی مٹی، وہ دیواریں، وہ فضائیں آج بھی گواہ ہیں کہ کائنات کے سب سے غمناک مناظر تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئے۔۔ وہ لمحہ جب رسولِ رحمت ﷺ نے اپنی آخری سانسیں اُس گود میں لیں جہاں محبت اور وفا کا دریا ہمیشہ بہتا رہا۔
اس عظیم لمحے میں ہمیں یاد رہنا چاہیے: نبوت کا سلسلہ تو ختم ہو چکا لیکن خاتم النبیین نے ہمیں جو راستہ دکھایا، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔۔ وہی چراغ جس کی روشنی ساری دنیا میں وِردِ جاوداں بن چکی ہے۔

