Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (11)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (11)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (11)

صلحِ حدیبیہ کا وہ معاہدہ، جو بظاہر مسلمانوں کے لیے شکست محسوس ہوا تھا، دراصل اسلام کی سب سے بڑی حکمت عملی ثابت ہوا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ذی القعدہ 6 ہجری (مارچ 628ء) میں ہوا۔

یہ معاہدہ اُس وقت عمل میں آیا جب رسول اللہ ﷺ اور تقریباً 1400 صحابہ کرام عمرہ ادا کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اہلِ مکہ نے آپ ﷺ اور صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، جس کے نتیجے میں دونوں طرف مذاکرات ہوئے اور حدیبیہ کے مقام پر ایک معاہدہ طے پایا، جسے تاریخِ اسلام میں صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔

عرب کے قبائل نے جب دیکھا کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ اور قریش امن کا معاہدہ کر چکے ہیں، تو ان کے دلوں کے دروازے کھلنے لگے۔ دینِ حق کی دعوت بے خوف و خطر قریہ قریہ پہنچنے لگی۔ دو سال میں وہی عرب، جو کبھی دشمنی میں خون بہا دیتا تھا، اسلام کی نرم روشنی میں اپنے دل پگھلانے لگا۔

لیکن قریش اپنی ضد اور غرور سے باز نہ آئے۔ حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا گیا، مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کرکے خون بہایا گیا۔ یہ اعلان تھا کہ اب مکہ کی گلیاں انصاف کا فیصلہ مانگیں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے دس ہزار کا لشکر تیار کیا۔۔ ایسا لشکر جو ساز و سامان سے لیس مگر غرور میں نہیں، بلکہ ایمان کے نور میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ لشکر قوت ایمانی کے ساتھ پوری طاقت سے نکل رہا تھا۔

رمضان کے دن تھے اور مدینہ سے مکہ کی سمت روانہ ہونے والا یہ قافلہ کسی انتقام کے لیے نہیں، بلکہ حق کے قیام کے لیے تھا۔ راستے بھر خاموشی تھی، صرف تلبیہ اور تکبیر کی سرگوشیاں تھیں، جو پہاڑوں اور وادیوں میں گونجتی تھیں۔

نبیِ رحمت ﷺ اپنی اونٹنی "قصواء" پر سوار تھے، سرِ انور عاجزی میں اپنے رب کے حضور جھکا ہوا، ہونٹوں پر حمد و تسبیح کے کلمات۔ وہ منظر تاریخ میں ایسا نقش بنا گیا جو رہتی دنیا تک عاجزی اور شکر کا استعارہ رہے گا۔

ابوسفیان۔۔ وہی شخص جو کبھی بدر اور اُحد میں مسلمانوں کے خون کے پیاسے لشکر کا سردار تھا۔۔ جب اس لشکر کو دیکھتا ہے تو خوف کی ایک لہر اس کے دل میں اُتر جاتی ہے۔ لیکن آقا دو جہاں محمد ﷺ کے دربار میں آ کر اسلام قبول کرتا ہے اور رسولِ رحمت ﷺ اسے عزت و احترام سے نوازتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوسفیان کے گھر پناہ ہے۔ یہی اس انقلاب کی اصل روح تھی: عفو، حلم اور عدل۔ ہندہ جس نے احد میں حضرت حمزہؓ کے جگر کو چبایا تھا، اسلام کے سایے میں پناہ لے رہی تھی اور وہ سب جنہوں نے اسلام کو دبانے کی پوری کوشش کی تھی، آج کعبہ کے سائے میں میرے آقا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے لیکن رحمتِ عالم ﷺ کے ہونٹوں سے وہ الفاظ نکلے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا:

"اذُهَبُوا فَأَنُتُمُ الطُّلَقَاء"

"جاؤ! تم سب آزاد ہو"۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام)

رمضان کی 20 تاریخ کو مکہ کی فضا میں ایک غیر معمولی منظر تھا۔ دس ہزار کا لشکر چار اطراف سے شہر میں داخل ہوا تھا، لیکن تلواریں نیام میں تھیں۔ کوئی انتقام کا نعرہ نہیں، کوئی جاہ و غرور کا علمبردار نہیں، بس ایک عاجز اور شکر گزار قافلہ، جس کا سردار اونٹنی کی پشت پر سر جھکائے بیٹھا تھا، اس شان کے باوجود کہ آج وہ فاتح ہے۔

وہ شہر جو کبھی ظلم و جبر کی علامت تھا، آج رحمت و عفو کا گہوارہ بن چکا تھا۔ مکہ کے دروازے کھل چکے تھے اور وہ لمحہ آ چکا تھا جس کی بشارت برسوں پہلے آسمان سے اُتری تھی:

إِذَا جَاءَ نَصُرُ اللَّهِ وَالُفَتُحُ ۝ وَرَأَيُتَ النَّاسَ يَدُخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفُوَاجًا ۝ فَسَبِّحُ بِحَمُدِ رَبِّكَ وَاسُتَغُفِرُهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾

(سورۃ النصر)

مکہ کی گلیوں میں سناٹا تھا۔ وہی گلیاں جن میں کبھی رسول اللہ ﷺ کو طعنے دیے گئے، پتھر برسائے گئے، آج شرمندگی اور حیرت سے خاموش تھیں۔ لوگ اپنے دروازوں کے پیچھے چھپے دیکھ رہے تھے کہ یہ فاتح لشکر کیا کرتا ہے۔ لیکن ان کے سامنے جو منظر تھا، وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔

محمد ﷺ کعبہ کے قریب پہنچے، آنکھوں میں عاجزی کے آنسو اور لبوں پر شکرکے کلمات تھے۔ "اللہ اکبر" کی صدائیں گونجنے لگیں اور خانۂ کعبہ کے دروازے کھول دیے گئے۔ اندر وہ تین سو ساٹھ بت جو صدیوں سے جاہلیت کے اندھیرے پھیلا رہے تھے، ایک ایک کرکے گرنے لگے۔ زبانِ نبوت ﷺ سے یہ الفاظ بلند ہوئے: "جاء الحق و زھق الباطل، إن الباطل کان زھوقا"

"حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے ہے"۔

ایک ایک کرکے بت ٹوٹتے گئے اور خانۂ کعبہ کا قبلہ پھر سے پاک ہوگیا۔ وہی قبلہ جو ابراہیمؑ کی توحید کی نشانی تھا۔ لوگ لرزتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ آج انتقام کا دن ہوگا۔ لیکن میرے آقا حضرت محمد ﷺ نھے خانۂ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا: "جاؤ! تم سب آزاد ہو۔ آج کوئی ملامت نہیں، تم سب کے لیے معافی ہے"۔

وہ لوگ جو کبھی دشمنی میں آگے آگے تھے، جنہوں نے مسلمانوں کا خون بہایا، آج حیرت سے خاموش تھے۔ دلوں کی کدورت پگھل گئی، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایسے دل جنہیں تلوار بھی نہ جھکا سکی تھی، رحمت کے اس سمندر کے سامنے جھک گئے۔

مکہ کے در و دیوار پر اب کلمۂ توحید کی روشنی پھیل چکی تھی۔ وہی شہر جو شرک سے لتھڑا ہوا تھا، اب توحید کا گہوارہ بن گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کو پاک کرکے نماز ادا کی اور صحابہؓ کے قافلے نے اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لایا۔

فتحِ مکہ کے بعد عرب کے قبائل کی سمت ایک ہی تھی۔ مدینہ اور مکہ کا یہ قافلہ، جس نے دشمنوں کو بھائی بنایا، جاہلیت کو ختم کیا اور عدل و رحمت کی حکمرانی قائم کی۔ طائف سے یمن تک، نجد سے بحرین تک، ہر سمت اسلام کی نرم اور پُرامن روشنی پھیل گئی۔

وہ لمحہ آ گیا تھا جس کی بشارت آسمانوں نے دی تھی۔ دنیا کے افق پر اسلام کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ وہ سورج جس کی روشنی نے دلوں کے اندھیرے مٹا دیے اور عرب کی زمین کو وہ عزت دی جو تاریخ میں کبھی نہ ملی تھی۔

مکہ کی پہاڑیوں سے اُٹھنے والی تکبیر کی گونج صدیوں کے فاصلے پر بھی سنی جانے لگی: "اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ"۔۔

دنیا نے ایک نئے دور کا آغاز دیکھا، ایک ایسا دور جہاں فاتح اپنے دشمنوں کو معاف کرتا ہے اور جہاں طاقت کے بجائے رحمت حکومت کرتی ہے۔ نبی رحمت ﷺ کو بارگاہ ایزدی سے اشارے ملنا شروع ہو گئے۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا مشن مکمل ہو چکا تھا۔ اسلام کا سورج اب پوری دنیا کو اپنی روشنی میں لپیٹنے کے لیے تیار تھا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari