Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (10)

Rehmat e Aalam, Aap He To Hain (10)

رحمتِ عالم ﷺ، آپ ہی تو ہیں (10)

مدینہ کی فضاؤں میں عزم اور دین اسلام کی خوشبو رچی ہوئی تھی اور رسالت محمدی کے سورج کی کرنیں مدینہ کے چار سو پھیل چکی تھیں۔ لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر رہے تھے۔ بالفاظ دیگر مکہ کے لوگوں نے جو تکالیف پہنچائی تھیں مدینہ کے لوگوں کی محبت نے میرے آقا رحمت دو جہاں، احمد مجتبٰی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا تھا البتہ کفار مکہ ابھی تک ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آ رہے تھے۔

میرے رب کی طرف سے کفار کیخلاف صف بندی کا حکم ہوا۔ مدینہ کے رمضان کی روشن راتوں میں ایمان والے اپنے رب کے حضور سر بسجود تھے اور صبح کے اجالے میں نبی کریم ﷺ کے حکم کے تابع میدان کی طرف روانہ ہو گئے۔ بدر کا معرکہ 13 مارج 624 رمضان المبارک 17 بروز جمعہ کو پیش آیا یہ وہ حق و باطل کا معرکہ تھا جب پہلی بار اسلام اور کفر کے درمیان فیصلہ ہونا تھا۔

بدر کی وادی ساکت تھی۔ ریت کی نرم سطح پر چلتے مسلمانوں کے قدموں میں نہ کوئی لشکر کی شان تھی اور نہ ساز و سامان کی بھرمار، لیکن دلوں میں ایمان کا کوہِ ہمالیہ تھا۔ صحابہ کرام اگرچہ صرف 313 تھے مگر بہت پرجوش تھے۔ ایسے لوگ جن میں سے زیادہ تر کے پاس تلواریں بھی نہیں، کچھ کے پاس ڈھال نہیں لیکن سب کے دل میں ایک ہی یقین تھا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے۔

قریش کا لشکر تین گنا بڑا، ساز و سامان میں کئی گنا زیادہ اور غرور سے سرشار میدان میں اُترا۔ ابو جہل کے قہقہے گونج رہے تھے اور مکہ کے سردار یقین رکھتے تھے کہ یہ دن نعوذبااللہ محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے خاتمے کا دن ہوگا لیکن بدر کی فضاؤں میں کچھ اور لکھا جا چکا تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے میدان کے کنارے خیمہ لگایا۔

رسولِ رحمت ﷺ نے خیمے میں جا کر اپنے رب کے حضور ہاتھ اُٹھائے، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور زبان سے وہ عاجزانہ دعا نکلی جس نے عرش کو ہلا دیا: "اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض أبدًا"۔

"اے اللہ! اگر یہ جماعت آج مٹ گئی تو پھر روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہیں بچے گا"۔ (مسند احمد)

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے روتے ہوئے کہا: "یارسول اللہ ﷺ، بس کیجیے، اللہ آپ سے وعدہ کر چکا ہے کہ آپ کو مدد دے گا"۔

یہ دعا آسمانوں کو چیرتی ہوئی اوپر گئی اور نصرت کے فرشتے اُترے۔ مسلمانوں کے قدموں کو ثبات ملا، دلوں کو سکون ملا اور تلواروں کو ایک ایسی قوت ملی جو انسانی تھی ہی نہیں۔

یہ وہ لمحہ تھا جب اللہ نے اپنے محبوب کو تسلی دی: ﴿إِذُ تَسُتَغِيثُونَ رَبَّكُمُ فَاسُتَجَابَ لَكُمُ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلُفٍ مِّنَ الُمَلَائِكَةِ مُرُدِفِينَ﴾

"جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی کہ میں تمہاری مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں، جو یکے بعد دیگرے اُتریں گے"۔ (الأنفال: 9)

فرشتے اُترے، دلوں کو سکون ملا اور میدانِ بدر ایمان اور یقین کا ایک نقشہ بن گیا۔

پہلا حملہ ہوا۔ شیر خدا علیؓ، عقابی جھپٹ رکھنے والے حمزہؓ اور رسول خدا کی محبت سے سرشار عبیدہؓ نے عرب کے بڑے بڑے سورماؤں کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ گرد اُڑتی رہی، تلواریں چمکتی رہیں اور اللہ کی مدد ہر وار میں نظر آتی رہی۔ ریت کے طوفان میں کفار کے دل دہل گئے اور سردار ابوجہل دو کمسن بچوں معوذ اور معاذ ؓم کے ہاتھوں جہنم واصل ہو کر وہیں زمین پر ڈھیر ہوگیا۔۔ وہی ابو جہل جو کل تک حق کی آواز کو دبانے کا خواب دیکھتا تھا۔

تلواروں کی جھنکار اور تکبیر کی گونج نے میدانِ بدر کو ایمان کا ایک زندہ معجزہ بنا دیا۔ قریش کی صفیں بکھر گئیں اور اللہ نے وہ فتح عطا فرمائی جس نے باطل کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔

بدر کے میدان میں ایمان جیت گیا، غرور ہار گیا۔ روایات میں ملتا ہے کہ 70 قریشی مارے گئے اور 70 قید ہوئے جبکہ مسلمانوں کے شہداء کی تعداد نہایت کم تھی۔ یہ فتح محض ایک معرکہ نہیں تھی یہ اسلام کے وجود کا اعلان تھی کہ اب یہ دین حق زمین پر پھیل کر رہے گا۔

اللہ نے اس عظیم معرکے کو رہتی دنیا تک کیلئے قرآن مجید میں کچھ یوں ثبت کیا: وَلَقَدُ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدُرٍ وَأَنتُمُ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمُ تَشُكُرُون۔

"اور یقیناً اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی، جب کہ تم کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم شکر ادا کر سکو"۔ (آل عمران: 123)

اگرچہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ کافی مال غنیمت آیا مگر لیکن یہ سفر محض فتوحات کا سفر نہیں تھا۔ یہ آزمائشوں کی راہ بھی تھی۔ اُحد کا معرکہ اسی راہ کی اگلی سخت ترین کڑی تھا۔

قریش کا زخم ابھی تازہ تھا۔ انکے زندہ بچ جانے والے سردار غصے سے تلملا رہے تھے۔ انہوں نے تین ہزار کا لشکر تیار کیا اور بدر کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ کی طرف چڑھائی شروع کر دی۔ مسلمانوں نے اُحد کے قریب مورچے سنبھالے اور دشمن پر پےدرپے حملے شروع کر دئیے۔ رسول اللہ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو پہاڑی پر مقرر کیا، حکم دیا: "جب تک میں نہ کہوں، اپنی جگہ نہ چھوڑنا"۔

ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا۔ قریش پسپا ہونے لگے، ان کے جھنڈے گرنے لگے اور ان کے دلوں میں خوف اُتر گیا۔ لیکن میدان کی چمکتی ہوئی مالِ غنیمت نے کچھ تیر اندازوں کو بے قرار کر دیا۔ انہوں نے سوچا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور اپنی جگہ چھوڑ دی۔ یہی لمحہ تھا جب خالد بن ولید، جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، نے ایک کاری وار کیا۔ گھوڑوں کی ٹاپیں گونجیں، قریش کا لشکر پلٹا اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔

میدان میں افرا تفری مچ گئی۔ تلواریں، نیزے، چیخیں اور گرد کی فضا میں ایک ہی چیز نمایاں تھی۔۔ آزمائش۔ خود نبی کریم ﷺ زخمی ہو گئے، آپ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے اور خون بہنے لگا۔ ابو عبیدہؓ اور علیؓ جیسے جاں نثار آپ کے گرد ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔

اُحد کے اس کٹھن معرکے میں 70 کے قریب جانثار صحابہؓ شہید ہوئے۔ حضرت حمزہؓ کا جسد خاکی بے دردی سے مسخ کیا گیا۔ میدانِ اُحد میں مسلمانوں کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن دلوں میں ایک یقین بھی تھا کہ یہ ہزیمت نہیں، اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ ہے کہ فتح صرف سامان سے نہیں، اطاعت سے آتی ہے۔

اُحد کے زخم گہرے تھے، لیکن ان زخموں نے ایمان کو اور پختہ کر دیا۔ قریش یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں کا حوصلہ ٹوٹ گیا ہے، مگر مدینہ کی گلیوں میں پھر سے وہی عزم گونج رہا تھا جو بدر سے پہلے تھا۔ مسلمان جان چکے تھے کہ یہ سفر قربانی اور صبر کا سفر ہے۔ یہ محض زمین کے ٹکڑوں کی جنگ نہیں، یہ حق اور باطل کا معرکہ ہے۔ مدینہ کی فضاؤں میں اُحد کے زخموں کی کسک ابھی باقی تھی۔ لیکن ان زخموں میں ایک ایسی حرارت بھی تھی جو آنے والے دنوں میں تاریخ کا دھار مکمل طور پر پلٹتے ہوئے ایک عظیم فتح کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan