Rasheeda Ki Kahani
رشیدہ کی کہانی
چالیس سالہ رشیدہ بی بی کو ایک دن چھاتی میں درد ہوا قریبی ہسپتال سے ای سی جی وغیرہ کروائی تو بالکل ٹھیک۔ مقامی ڈاکٹر نے دوا دی اور وہ بالکل تندرست ہوگئی کچھ روز بعد دوبارہ اسی طرح چبھن والا درد ہوا تو اس نے دوبارہ وہی ایک خوراک لے لی بالکل بھلی چنگی۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد ایک دن کپڑے تبدیل کرتے وقت عین درد والی جگہ اس کا ہاتھ لگا تو وہاں کوئی گومڑ نما چیز محسوس ہوئی۔ اس نے تھوڑا دبایا تو درد دوبارہ شروع ہوگیا۔
اگلے دن وہ مقامی رورل ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر تانیہ کے پاس گئی جو حال ہی میں گنگا رام ہسپتال سے ہاؤس جاب سے فارغ ہو کر وہاں تعینات ہوئی تھی۔ رشیدہ نے سارا احوال ڈاکٹر صاحبہ کو سنایا لیڈی ڈاکٹر سیانی تھی اس نے چھاتی کا فزیکل معائنہ کیا اور دوا لکھے بغیر رشیدہ کو چھاتی کا ایکسرا کروا کر لانے کو کہا۔ رشیدہ ٹی بی کے ڈر سے پریشان ہوگئی اور ایکسرے کروائے بغیر گھر واپس چلی گئی۔ وہی دردوں والی دوا کی پڑیا لی اور ٹھیک ہو گئ۔
چند روز بعد اس نے چھاتی کی گلٹی بارے اپنی سہیلی زبیدہ کو بتایا تو اسے نے کہا فلاں قبرستان پر ایک بابا جی رہتے ہیں وہ بڑے پہنچے ہوئے ہیں انکے ایک رشتے دار کو سارے جسم پر گلٹیاں تھیں بابا جی نے مٹی دم کرکے دی تو اسے مکمل آرام آ گیا۔ رشیدہ اگلی صبح اپنی سہیلی کیساتھ بابا جی کی طرف چل دی۔ بابا نے مٹی دم کر دی کہ یہ دن میں تین بار گلٹی کے اردگرد جگہ پر پھیرنی ہے اور تعویز گلٹی والی جگہ رکھنے کو دے دیا۔ رشیدہ کچھ ہی دن بعد ٹھیک ہوگئی اور اتفاقاً اسکا گلٹی کا سائز بھی معمولی سا کم محسوس ہونے لگا۔
چار ماہ بعد رشیدہ کو شدید بخار ہوا جسم اور ہڈیوں میں درد کیساتھ چھاتی میں بھی درد تھا۔ اسکی سہیلی زبیدہ اسے مقامی رورل ہیلتھ سنٹر میں لے گئی جہاں اسی لیڈی ڈاکٹر تانیہ نے اسکی ہسٹری لے کر چھاتی کا ایکسرے کروا کر لانے کا کہا۔ رشیدہ غصے میں آ کر کہنے لگی کہ ساڑھے چار ماہ پہلے بھی آپ نے دوا لکھے بغیر ہی ایکسرے کروانے کا کہہ دیا تھا "کتھوں ڈاکٹری کرکے آئی ایں تینوں تے ڈاکٹری ای نئیں آؤندی"۔
لیڈی ڈاکٹر تانیہ کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے پرچی پر ایمرجنسی ایکسرے لکھ کر ساتھ خود جا کر ایکسرے کروایا دیکھنے پر شک گزرا کہ ایک سائیڈ والی چھاتی میں رسولی نما کوئی چیز ہے۔ اس نے رشیدہ کو فوری طور پر لاہور ریفر کیا جہاں رشیدہ کے مزید ٹیسٹ کرنے پر پتہ چلا کہ اسے بریسٹ کینسر آخری سٹیج پر ہے جو جسم کے دیگر اعضاء میں بھی اپنے پنجے گھاڑ چکا ہے۔ زندگی کے اگلے تین ماہ رشیدہ نے اس لاعلاج بیماری کیساتھ جس کرب میں گزارے یہ رب ہی جانتا ہے بالآخر رب العالمین نے اسکی یہ تکلیف تو کاٹ لی مگر اسکے چار بچے ممتا سے محروم ہو گئے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے اندر بریسٹ یعنی چھاتی کے کینسر کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ چالیس ہزار خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ ہر سال اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری سٹیج پر تو بریسٹ کینسر کا مکمل شافی علاج موجود ہے تیسری سٹیج پر بھی علاج ممکن ہے البتہ آخری سٹیج پر جا کر یہ لاعلاج ہو جاتا ہے۔
جن خواتین کی فیملی میں پہلے بھی کسی کو بریسٹ کینسر تشخیص ہو چکا ہے وہ تیس سال کی عمر سے اور دیگر خواتین پینتیس سال کی عمر سے اپنی قریبی فیمیل کنسلٹنٹ فزیشن سے چھاتی کا معائنہ ہر تین یا چھ ماہ بعد باقاعدگی سے کروائیں۔ ویسے تو ابتدائی معائنہ خواتین گھر پر بھی باقاعدگی سے کر سکتی ہیں یہ ایک بالکل سادہ سا طریقہ ہے یوٹیوب پر اسکی ویڈیوز موجود ہیں یا اپنے قریبی ڈاکٹر سے سمجھ لیجئے۔
اگر معمولی سی بھی گلٹی کا شک ہو تو فی الفور قریبی ہسپتال سے ایکسرے و میموگرام کا ٹیسٹ کروائیں۔ پاکستان کے کئی ہسپتالوں میں یہ ٹیسٹ فری بھی ہوتا ہے اور بڑے ہسپتال ڈسکائونٹ کرتے ہے وہ خواتین جن کی عمر پینتیس سال ہوگئی ہے وہ یہ ٹیسٹ ضرور کرائیں۔ یہ واحد ٹیسٹ ہے جس سے بروقت بیماری کی تشخیص ہو سکتی ہیں ورنہ عموماً بریسٹ کینسر کا آخری سٹیج پر پتہ چلتا ہے۔