Pakistan Aur Aids
پاکستان اور ایڈز
گزشتہ برس ایک ڈاکٹر دوست سے ملنے لاہور کے ایک ہسپتال میں جانا ہوا جہاں ایک ایڈز کے مریض سے ملاقات ہوئی جو دس سال سے اس مرض میں مبتلا ہے مگر باقاعدہ علاج سے ہشاش بشاش زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے بقول وہ بیرون ملک تین سال مقیم رہا غالب امکان ہے کہ وہیں سے اس مرض کا شکار ہوا۔ ایچ آئی وی ایک ضدی قسم کا وائرس ہے جس کے زریعے پیدا ہونے والے مرض کو ایڈز کہتے ہیں۔ ایڈز کا مرض جہاں پوری دنیا کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے وہیں پاکستان میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دس سال کے دوران ایچ آئی پازیٹو لوگوں کی شرح تشویشناک حد تک بڑھی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ایچ آئی وی پازیٹو رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یاد رکھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایچ آئی وی کا باقاعدہ ٹیسٹ کروایا اور انکا ٹیسٹ پازیٹو آیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کی تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بیماری کو باعث شرمندگی سمجھنے کیوجہ سے ایچ آئی وی ٹیسٹ ہی نہیں کرواتے۔
ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی سیکس نہیں ہے۔ سیکس تو دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اسکے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بذریعہ انجیکشن نشہ آور دواؤں کا استعمال ہے۔ اس میں ایک ہی سرنج سے کئی لوگ نشہ لیتے ہیں جس سے ایچ آئی وی کی بیماری ایک شخص سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے اور دیگر کئی لوگوں کو منتقل کرتے ہیں۔ اس بارے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ایک سرنج ایک شخص کیلئے اور ایک بار ہی استعمال کی جائے۔ بذریعہ انجیکشن نشہ لینے والوں سے نفرت کے بجائے ان سے پیار کیجئے انکا علاج کروائیں تاکہ وہ اس مہلک مرض سے محفوظ رہ سکیں۔
اس کے علاوہ ایڈز کا مرض مرد سے عورت کو، عورت سے مرد کو اور مرد سے مرد کو بذریعہ غیرمحفوظ جنسی تعلقات پھیلتا ہے۔ کنڈوم کا استعمال اگرچہ ایڈز سے محفوظ رکھ سکتا ہے مگر وہ بھی سو فیصد محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا خود کو شریک حیات تک محدود رکھیں یہی فطری تقاضا بھی ہے۔ پاکستان میں ہر ضلع، ہر شہر، ہر قصبے میں جگہ جگہ قحبہ خانے کھلے ہوئے ہیں جن کو بند کروانے کی اشد ضرورت ہے اس کیلئے حکومت کو ٹھوس اور سخت اقدامات لینے ہوں گے۔
اگرچہ ان قحبہ خانوں کو مکمل طور پر بند کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ اندر کھاتے یہ چلتے ہی رہیں گے۔ اس کا ایک اور حل ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ حل غیر شرعی ہونے کی بناء پر برا لگے لیکن سخت پالیسیز کے ذریعے ایڈز سے بچاو کیلئے یہ ایک بہترین حل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں ناں حکومت اس کیلئے بذریعہ قانون سازی ان سارے قحبہ خانوں کو رجسٹرڈ کر دے اور ان میں کام کرنے والے سیکس ورکرز کے ہر ماہ ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کے تمام ٹیسٹس باقاعدگی سے کروائے جائیں۔ نظام کو ڈیجیٹلائزیشن کرکے ہر سیکس ورکر کیلئے سرٹیفیکیٹ لینا لازمی ہو۔
میں خود اس حق میں نہیں ہوں کیونکہ مجھے یہ طریقہ بہت عجیب لگ رہا ہے لیکن بہرحال بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔ مجھے بھی اس حل پر بہت سے خدشات ہیں لیکن ایڈز آگاہی مہم کی ایک میٹنگ کے دوران جب میں نے دوستوں کی رائے لینے کیلئے یہ حل پیش کیا تو میٹنگ میں بیٹھے لوگوں نے اس حل کو بھی ایک قابلِ عمل حل قرار دیا تھا۔ بہرحال اسلام اس حل کی اجازت نہیں دیتا مگر میری علماء کرام سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں رہنمائی کریں ورنہ اگلے دس برس میں ایڈز کا عفریت پاکستان کی جڑوں تک پھیل جائے گا اور ملک کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
ایڈز کے مریض کیساتھ نفرت کے بجائے پیار کیجئے۔ ایڈز کے مریض کیساتھ بیٹھ کر کھانے، پینے، گلے ملنے، آنسو، تھوک، چھینک، چومنے، سویمنگ پول میں نہانے، ٹوائلٹ شئیر کرنے سے یہ مرض ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہو سکتا۔
ایچ آئی وی پازیٹو مریض بھی باقاعدہ علاج کے زریعے بالکل نارمل لوگوں کی طرح صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، شادی کر سکتے ہیں اور صحتمند بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے مریض کی زندگی بھی ایک عام صحتمند شخص کی زندگی کے برابر طویل ہوتی ہے۔