Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Pak Bharat Jung Bandi Ke Baad Ka Manzar Nama

Pak Bharat Jung Bandi Ke Baad Ka Manzar Nama

پاک بھارت جنگ بندی کے بعد کا منظرنامہ

پاک بھارت جنگ بندی کے بعد ہر روز متعدد بار صدر ٹرمپ ہر عالمی فورم پر یہ دہراتے کہ پاک بھارت جنگ بندی میں نے کروائی ورنہ بڑی جنگ کا خطرہ تھا۔ ہر بار بھارت کو سبکی محسوس ہوتی۔ بالآخر کل ان سے رہا نہ گیا اور بھارتی سیکرٹری خارجہ نے ایک بریفنگ کے دوران یہ بیان دے دیا کہ "پاک بھارت سیز فائر میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں، یہ دونوں ملکوں کا متفقہ فیصلہ تھا"۔

کہتے ہیں جنگیں صرف میدانِ کارزار میں نہیں لڑی جاتیں، کچھ معرکے بند کمروں میں الفاظ کے نیزوں اور خاموشی کی ڈھال سے بھی لڑے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی جملہ توپ کی گھن گرج پر بھاری ہوتا ہے، تو کبھی ایک تردید پوری مہماتی حکمتِ عملی کو ڈھیر کر دیتی ہے۔ سفارت کاری کی یہ نازک شطرنج اکثر وہ سچ سامنے لے آتی ہے جو بسا اوقات مصلحتوں کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی چال چلی گئی بھارت کی پارلیمانی کمیٹی کے روبرو، جہاں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے لب کھولے تو بات صرف ایک تردید کی نہ رہی، بلکہ کئی کہانیوں کے ابواب اپنے انجام کو پہنچنے لگے۔

وکرم مصری نے صاف الفاظ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو جنگ بندی سے خارج کر دیا۔ یہ وہی ٹرمپ تھے جنہوں نے بارہا ثالثی کا دعویٰ کیا اور جن کی ٹوئٹس بھارتی میڈیا کے لیے ایسی تھیں جیسے کسی محاذ پر جیت کی گواہی۔ مگر بھارت کی ہی خارجہ پالیسی کے نگران نے یہ کہہ کر ساری سچائیاں کھول دیں کہ جنگ بندی پاکستان اور بھارت کے مابین براہِ راست عسکری قیادت کی بات چیت سے ممکن ہوئی، نہ کہ کسی امریکی دباؤ یا ثالثی سے۔

یہ صرف امریکہ کی کردار کشی نہیں، بلکہ بھارت کی اپنی ہی سفارتی حکمتِ عملی پر ایک طرح کی عدم اعتماد کی صورت تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اپنی خودمختار پالیسی کا دعویٰ کرتے کرتے بھارت اتنا تنہا ہوگیا ہے کہ اب وہ بسا اوقات اپنی ہی تشریحات کو رد کرتا نظر آتا ہے، صرف یہ دکھانے کے لیے کہ "ہم کسی کے محتاج نہیں"۔

تاہم وکرم مصری کا بیان محض ٹرمپ کے انکار پر ختم نہیں ہوتا۔ اس بیان کا سب سے اہم نکتہ وہ ہے جس میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان کی جانب سے ایٹمی حملے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ یہ اعتراف بذاتِ خود بھارتی بیانیے کی نفی ہے، کیونکہ گزشتہ برسوں میں بھارتی حکومت بالخصوص وزیر اعظم مودی اور ان کے رفقاء، پاکستان کو نیوکلئیر تھریٹ کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں ایک ایسا بیانیہ جو داخلی سیاست اور عالمی ہمدردی سمیٹنے کا ذریعہ رہا۔

مصری کا یہ اعتراف گویا سفارتی شکست کی دستاویز تھا، جس میں سچ کو بالآخر زبان دی گئی۔ اس سچ نے نہ صرف جھوٹے پراپیگنڈے کو بے نقاب کیا بلکہ بھارت کے اس جارح مزاج میڈیا کو بھی آئینہ دکھایا، جو جنگی جنون سے عوام کو بہلانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مگر اب وہی عوام، جو کبھی پاکستان دشمنی پر خوش ہوا کرتی تھی، سوال کر رہی ہے کہ اگر خطرہ ایٹمی تھا ہی نہیں، تو ہمیں خوف کی دیوار کے پیچھے کیوں چھپایا گیا؟ وہ قوم جو ہیرو تلاش کر رہی تھی، اب جھوٹ کے ڈائریکٹرز پر سنگ باری کر رہی ہے۔

یہ معاملہ اب محض جنگ بندی یا ثالثی کا نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی ریاست کے اندرونی اضطراب کا عکس ہے جو بین الاقوامی منظرنامے میں خود کو الگ تھلگ پاتی ہے۔ چین سے سرحدی تناؤ، نیپال سے تعلقات میں دراڑ، بنگلہ دیش کی ناراضگی اور اب امریکہ جیسے اتحادی کا نام لینا بھی گوارا نہ کرنا یہ سب بھارت کی نئی سفارتی تنہائی کے اشاریے ہیں۔

وکرم مصری کا بیان درحقیقت ایک اندرونی اعتراف ہے کہ بھارت اب اس سطح پر آ چکا ہے جہاں اسے خود اپنی ساکھ بچانے کے لیے سچ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سچ بولنے کا وقت گزر چکا ہو، تب سچ بھی ایک چبھتا ہوا اعتراف بن جاتا ہے۔

یوں لگتا ہے بھارت ایک ایسی کشتی بن چکا ہے جسے پار لگانے کے لیے کسی خارجی ملاح پر اعتماد نہ رہا، مگر داخلی پتوار بھی ٹوٹ چکی ہیں۔ عالمی سفارت کاری میں اب جذبات سے زیادہ توازن اور حقیقت پسندی کا دور ہے اور جس ریاست کا سفارتی بیانیہ جھوٹ اور مفروضوں پر قائم ہو، وہ خواہ کسی بھی سپر پاور کی قربت میں ہو، آخرکار تنہائی ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

Check Also

Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?

By Saqib Ali