Nikah Asan Bill Bhi Nafiz Kijiye
نکاح آسان بل بھی نافظ کیجئے

حالیہ دنوں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کرکے 18 سال سے کم عمر کے نکاح کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا۔ یہ قانون بلاشبہ بچپن کے تحفظ، کم سن بچیوں کی زندگیوں کو برباد ہونے سے بچانے اور سماجی اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قانون سازی صرف روکنے کے لیے ہوتی ہے؟ کیا ریاست کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ "کیا نہ کریں" پر قوانین بنائے، یا یہ بھی کہ وہ "کیا کریں" پر بھی راہنمائی دے؟
گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تیس سال سے زائد عمر کی ایسی لڑکیاں موجود ہیں جن کی شادیاں مختلف سماجی، مالی یا خاندانی وجوہات کی بنا پر نہ ہو سکیں۔ ان میں اکثر لڑکیاں عمر کی اس حد سے گزر چکی ہیں جہاں معاشرہ انھیں قابلِ شادی، سمجھتا ہے لیکن ان کے لیے راستے کھولنے والا کوئی نہیں۔
اگر قانون یہ کہتا ہے کہ 18 سال سے پہلے نکاح نہ ہو، تو کیا ریاست یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ 30 سال سے بعد کی شادی میں تاخیر والدین یا معاشرے کی اخلاقی و قانونی ناکامی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض قوانین بنانے سے اصلاح نہیں ہوتی جب تک ان کے ساتھ مواقع، سہولتیں اور مثبت و قابل عمل روایتیں نہ دی جائیں۔
معاشرے میں ایک نہایت خطرناک رویہ یہ بھی ہے کہ بعض والدین بلاوجہ اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں۔ تعلیم، کیریئر یا غیر ضروری "اونچا رشتہ" دیکھنے کے چکر میں بیٹے بیٹیاں عمر کی اس دہلیز پر جا پہنچتے ہیں جہاں شادی کی خواہش خود پسپا ہونے لگتی ہے۔ کیوں نہ ایسا قانون بھی لایا جائے جس کے تحت والدین پر لازم ہو کہ وہ بیٹے یا بیٹی کی عمر 25 سال تک پہنچنے سے پہلے شادی کا انتظام کریں؟ اور اگر بلا جواز تاخیر کی جائے تو اس پر ریاستی توجہ اور اصلاحی اقدامات کیے جائیں۔ اگر لڑکا پچیس سال کی عمر کو پہنچ جائے مگر وہ شادی ایفورڈ نہ کر سکے تو اس کیلئے حضرت عمر فاروقؓ کے قول کی صورت میں بہترین حل موجود ہے:
حضرت عمر بن خطابؓ کا قول ہے: "اگر کوئی نکاح کا خواہش مند ہے اور اس کے لیے وسائل مہیا نہیں تو بیت المال اس کی مدد کرے"۔
آج اگر عمر بن خطابؓ زندہ ہوتے تو وہ صرف ممانعت کا قانون نہیں بناتے بلکہ اعانت کا نظام بھی کھڑا کرتے۔
شادیوں میں سب سے زیادہ استحصال لڑکی والوں کا ہوتا ہے۔ جہیز آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک ظالمانہ روایت کی شکل میں زندہ ہے حالانکہ شریعت کہتی ہے: "مہر شوہر کی ذمہ داری ہے، جہیز بیوی کی نہیں"۔ (سورۃ النساء: 4)
حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی شادی انتہائی سادگی سے کی۔ صرف چند ضروری اشیاء جہیز دیا۔ نہ کوئی مطالبہ، نہ نمائش۔ یہ وہی نکاح ہے جسے آج ہم مثالی کہتے ہیں مگر عمل کرنے سے کتراتے ہیں۔
"مہر دینا شوہر کی ذمہ داری ہے، جہیز دینا بیوی کی نہیں"۔ (النساء: 4)
ایسا قانون آنا چاہیے جس میں جہیز لینا اور مطالبہ کرنا جرم ہو اور لڑکے والوں کی قانونی ذمہ داری بنے کہ وہ بہو کے لیے تمام ضروری اشیاء مہیا کریں۔
نکاح کے بعد لڑکی کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے، نہ کہ اس کی ماں، بہن یا بھائی کی۔ ایک بہت ہی بنیادی مگر باعزت تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ: "نکاح کے بعد شوہر پر لازم ہو کہ وہ بیوی کے لیے ایک الگ سادہ کمرہ، ایک چھوٹا سا کچن اور واش روم مہیا کرے تاکہ نئی دلہن اپنے سسرال میں مہمان نہیں بلکہ مالکہ کی حیثیت سے داخل ہو"۔
اگر یہ ممکن نہ ہو، تو ریاست لڑکی کو کم از کم یہ حق ضرور دے کہ وہ ایسے نکاح سے انکار کر سکے جس میں اس کے لیے کوئی جگہ ہی نہ ہو۔
نکاح آج سب سے مشکل ترین فریضہ بنتا جا رہا ہے۔ مہنگے کپڑے، قیمتی زیورات، چار چار دن کی تقریبات اور لاکھوں کا خرچ، یہ سب شریعت کی روح کے منافی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو"۔ (مسند احمد: 24529)
ریاست کو علماء کی مشاورت سے ایک "نکاح آسان بل" بھی متعارف کروانا چاہیے جس میں:
شادی کے اخراجات کی حد مقرر ہو۔
بینک قرض یا قسطوں پر شادی پر پابندی ہو۔
اور سادہ سے ولیمے کو فروغ دیا جائے۔
یہی نہیں بلکہ مساجد میں شادی کے اعلان اور سادگی کو ثقافتی فخر کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ لوگ معاشرتی دباؤ کے بجائے دینی آسانی کو ترجیح دیں۔
انصاف کا مطلب صرف سزا دینا نہیں، بلکہ راستہ دینا ہے۔ کم عمری کی شادی کے خلاف قانون ضروری تھا لیکن تاخیرِ نکاح کے خلاف شعور و سہولت پیدا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جہیز پر پابندی ہونا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ لڑکی کو عزت و آرام دینے والے شوہر کی ذمہ داری بھی واضح ہونی چاہیے۔ نکاح کو روکنے والوں کے خلاف قانون ہے تو نکاح کرنے والوں کے لیے آسانی کا راستہ بھی ہو۔
یہ تبھی ممکن ہے جب ریاست، علماء، والدین اور سماجی تنظیمیں ایک مکالمہ، ایک منصوبہ اور ایک نیت سے اصلاح کی طرف بڑھیں۔

